اسلام آباد
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں نوجوان جب اپنی محنت کے ثمرات حاصل کرنے کے مرحلے پر پہنچتے ہیں، تو ان کے سامنے ایک ایسا دیو قامت نظام کھڑا ہو جاتا ہے جسے “تصدیقِ ڈگری” کہا جاتا ہے — مگر حقیقت میں یہ نظام علم کی نہیں، عدمِ اعتماد، بدنظمی اور مالی استحصال کی داستان بن چکا ہے۔
یونیورسٹی سے حاصل کی جانے والی ڈگری، جس پر وائس چانسلر اور کنٹرولر امتحانات کے دستخط ثبت ہوتے ہیں، وہی ڈگری ایک بار نہیں بلکہ تین تین اداروں کی مہر کے انتظار میں ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ پہلے یونیورسٹی، پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)، اور آخر میں وزارتِ خارجہ (MOFA) — جیسے ریاست اپنے ہی اداروں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
یہ پورا سلسلہ اس تلخ حقیقت کی علامت ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے، اور اس کی قیمت وہ نوجوان ادا کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی علم کے نام وقف کی۔
تصدیق یا تذلیل؟ ایک اذیت ناک دفتری چکر
تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈگری کی تصدیق کے مراحل کسی امتحان سے کم نہیں۔ HEC کے “ڈیجیٹل” سسٹم کے باوجود، طلبہ کو ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ معمولی غلطی، اسکین کی وضاحت یا فائل کے سائز کی بنیاد پر پوری درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔
پھر دوبارہ فیس، دوبارہ فارم، اور دوبارہ چالان — جیسے تعلیم نہیں، فیس جمع کروانا ہی سب سے بڑی قابلیت ہو۔
اس پورے عمل میں ہزاروں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ کورئیر، بینک چارجز، اور “پروسیسنگ فیس” کے نام پر جو رقم وصول کی جاتی ہے، وہ کسی بھی عام طالب علم کے لیے بوجھ سے کم نہیں۔ یوں علم حاصل کرنے کا سفر ایک مالی اذیت میں تبدیل ہو جاتا ہے، جہاں نوجوانوں کو اپنی ہی ڈگری پر ریاستی مہر خریدنی پڑتی ہے۔
باہمی بے اعتمادی: نظام کی جڑوں میں زہر
سوال یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی خود ایک تسلیم شدہ ادارہ ہے، اور HEC اسی کو منظوری دیتا ہے، تو پھر ایک ہی دستاویز کو تین مختلف ادارے کیوں تصدیق کرتے ہیں؟
یہ بدنظمی دراصل ریاستی اداروں کے باہمی عدم اعتماد کا عکس ہے۔
یعنی ایک ادارہ دوسرے پر یقین نہیں کرتا، مگر سب مل کر طالب علم سے یقین چاہتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے نظامِ تصدیق کو اعتماد کے بجائے تذلیل کا استعارہ بنا دیا ہے۔
مواقع کی محرومی
بیرونِ ملک تعلیم، اسکالرشپ، یا روزگار کے مواقع کے لیے تصدیق شدہ ڈگری بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جب تصدیق کا عمل ہی مہینوں لٹک جائے تو وہ قیمتی مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
کئی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک ایڈمیشن یا نوکری حاصل کی، مگر تصدیق میں تاخیر کے باعث وہ موقع ضائع ہو گیا۔
یہ تاخیر صرف انتظامی نہیں بلکہ قومی نقصان ہے — کیونکہ یہی نوجوان ملک کے مستقبل کے معمار تھے، جو اب یا تو مایوس ہو جاتے ہیں یا بیرونِ ملک ہجرت کر جاتے ہیں۔
تصدیق کا دھندہ یا لوٹ مار کے کھانچے۔
بدقسمتی سے ڈگری تصدیق کا نظام شفافیت کے بجائے مفادات کا کھیل بن گیا ہے۔
بیوروکریسی کی سستی، رشوت، اور "افسر دفتر میں نہیں ہیں” جیسے حربے عام ہیں۔
بعض اوقات ایک چھوٹے سے کام کے لیے مہینوں کا انتظار اس لیے کروایا جاتا ہے تاکہ طالب علم مجبور ہو کر "غیر رسمی طریقہ” اختیار کرے۔
یوں تصدیق کا نظام کرپشن کا اڈہ بن چکا ہے، جہاں تعلیم یافتہ نوجوان بھی استحصالی جال سے نہیں بچ پاتے۔
ریاستی ذمہ داری یا عوامی بوجھ؟
تعلیم ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر پاکستان میں یہ ذمہ داری بوجھ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ڈگری تصدیق کے نام پر لی جانے والی بھاری فیسیں دراصل اس طبقاتی فرق کو مزید بڑھا رہی ہیں جو پہلے ہی تعلیمی نظام میں موجود ہے۔
غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ اس بوجھ تلے دب کر اپنی محنت کی قدر کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب علم، عزت نہیں، بلکہ ایک “پیداوار” بن جاتا ہے — اور ریاست اپنے طلبہ کو شہری نہیں بلکہ صارف سمجھنے لگتی ہے۔
ایک جدید اور شفاف ڈیجیٹل نظام وقت کی ضرورت ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈگری کی تصدیق ایک کلک پر ممکن ہے۔
ایک مرکزی ڈیجیٹل پورٹل تمام اداروں کو جوڑ دیتا ہے، جہاں ہر ڈگری کی تصدیق کا ریکارڈ آن لائن دستیاب ہوتا ہے۔
پاکستان بھی اگر چاہے تو اسی ماڈل پر “ون ونڈو ڈیجیٹل ویریفیکیشن سسٹم”قائم کر سکتا ہے، جس کے تحت یونیورسٹی، HEC، وزارتِ خارجہ، اور سفارت خانے ایک ہی پلیٹ فارم سے تصدیق کریں۔
یہ نہ صرف بدعنوانی کو ختم کرے گا بلکہ نوجوانوں کو وقت، پیسہ اور عزت تینوں کی حفاظت دے گا۔
اصلاحات اور بہتری کے لیے چند تجاویز
ڈیجیٹل ون ونڈو سسٹم قائم کیا جائے جس میں تمام ادارے منسلک ہوں۔
فیسوں میں کمی یا مکمل خاتمہ کیا جائے تاکہ تصدیق کا عمل بوجھ نہ بنے۔
خودکار ڈیٹا شیئرنگ کے ذریعے یونیورسٹی سے جاری ڈگریاں براہِ راست HEC سے منسلک ہوں۔
ٹائم لائن مقررکی جائے تاکہ تصدیق 7 سے 10 دن کے اندر مکمل ہو۔
آن لائن ٹریکنگ سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ طلبہ کو شفاف معلومات ملیں۔
بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے بیرونِ ملک تصدیق کو خودکار بنایا جائے۔
احتسابی نظام قائم کیا جائے جو تاخیر یا کرپشن کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔
ڈگری تصدیق کا گھن چکر دراصل اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اپنے ہی پراسز اور طلبہ پر اعتبار نہیں کرتا۔
یہ نظام اس وقت تک قابل اصلاح نہیں ہو سکتا جب تک ریاست اپنے نوجوانوں کو سہولت، عزت اور اعتماد فراہم کرنے کو ترجیح نہ دے۔
اگر حکومتِ پاکستان نے اس نظام کو شفاف اور ڈیجیٹل نہ بنایا تو ہم ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھیں گے جہاں علم عزت نہیں، بلکہ بوجھ بن جائے گا۔
وقت آ گیا ہے کہ تصدیق کا نظام “کاغذ کی مہر” سے نکل کر اعتماد کی رشتے میں تبدیل ہو — کیونکہ کسی بھی قوم کی اصل تصدیق اس کے تعلیم یافتہ نوجوان ہی ہوتے ہیں۔