تحریر: سیدشاہ حسین
فکری، نفسیاتی اور روحانی موضوعات پر لکھنے والے نوجوان قلم کار
تعارف:
زندگی کا سب سے بڑا دکھ مر جانا نہیں، بلکہ جیتے جی خود کو بھلا دینا ہے۔
یہ کالم اس انسان کی خاموش پکار ہے جو زندگی سے مایوس نہیں، بلکہ صرف سمجھے جانے کی آرزو رکھتا ہے۔
زندگی ۔ ایک راز، ایک سوال
زندگی محض سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ معنی تلاش کرنے کا سفر ہے۔ہم روز جیتے ہیں، مگر ہم میں سے اکثر یہ جانتے ہی نہیں کہ ہم کیوں جی رہے ہیں۔جب مقصد چھن جائے، خواب بوجھ بن جائیں، اور امید بجھنے لگے—-تو انسان اپنے وجود کے خالی پن سے بھاگنے لگتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے — آخری لمحہ —
جہاں دل اور دماغ کے درمیان خاموش مکالمہ برپا ہوتا ہے۔
زندگی کہتی ہے: “ٹھہرو، ابھی کچھ باقی ہے!”
اور موت سرگوشی کرتی ہے: “چلو، اب درد ختم ہو جائے گا!”
فلسفہِ وجود اور انسان کا دکھ:
فلسفہ کہتا ہے کہ انسان دو دنیاؤں میں جیتا ہے —ایک باہر کی دنیا، ایک اندر کی۔باہر کی دنیا جینے کا فن بھی کچھ لوگوں کے پاس کمال کا ہوتا ہے جو اپنے اردگردرہنے والوں کو محسوس تک نہیں ہونے دیتے کہ اندر کی دنیا تباِہ ہوچکی ہے۔باہر سب کچھ سلامت لگتا ہے، مگر اندر چیخ رہا ہوتا ہے۔خودکشی اس ہی اندرونی بغاوت کا نام ہے۔یہ جسم کا انجام نہیں، روح کے مکالمے کی شکست ہے۔ خوش کشی کی بظاہر کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ مایوسی ہے۔
اکثر اوقات، خودکشی کرنے والا، اپنے کسی قریبی سے تنگ ہوسکتا ہے ۔جن سے وہ محبت کرتا ہےاور ان کو اذیت دینے سے ڈرتا ہے۔وہ اپنے غم، احساسِ ناکامی وتکالیف کواپنے چاہنے والوں پر بوجھ نہیں بنانا چاہتا۔چنانچہ جب وہ اپنے اردگرد کے چہروں کو دکھ میں ڈوبا دیکھتا ہےیا اپنوں کے بے گانے رویوں کو محسوس کرتا ہے تو وہ اپنا آپ قربان کر دینا آسان سمجھتا ہے۔یوں وہ اپنی ذات کو فنا کر دیتا ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں کو اس اذیت سے نکالے اور خود بھی راہِ فرار اختیار کرے۔
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
یہ خودکشی نہیں —بلکہ ایک غلط فہم قربانی ہے،جو درد کے اندھیروں میں لی گئی روشنی کی تلاش کی کوشش ہے۔
ایک سوال جو باقی رہ جاتا ہے
خودکشی کے بعد ہمیشہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے —
"کیوں؟”
ہم باقی تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈ لیتے ہیں —
کب کی؟، کہاں کی؟، کیسے کی؟، کس نے کی؟ —
مگر "کیوں” کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔یہ سوال وہی شخص لے کر جاتا ہے جو خودکشی کرتا ہے،اور اس کا جواب صرف وہ خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔باقی سب قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
یہ “کیوں” دراصل انسان کی خاموش چیخ ہے —ایک دردناک مکالمہ جو دنیا کو وہ نہیں سنانا چاہتا۔
دین کی روشنی میں زندگی کی حرمت:
اسلام انسان کی جان کو اللہ کی امانت قرار دیتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔ النساء: 29
اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہے۔الانعام: 151
اس ہی طرح متعدد احادیث مبارکہ میں بھی رسولِ اکرم ﷺ خود کشی کی ممانت فرمائی، اس کےبے جا نقصانات بیان فرمائے۔
یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ خودکشی محض ایک عمل نہیں،بلکہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کا اعلان ہےاور مایوسی ایمان کے خلاف ہے۔قرآن کہتا ہے:اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔الزمر: 53
روحانی و سماجی پہلو
خودکشی بظاہر درد کا خاتمہ نہیں بلکہ روحانی عذاب کا آغاز ہے۔یہ ایک لمحے کا فیصلہ ہوتا ہے جو کئی زندگیاں بدل دیتا ہے۔باپ کا سہارا،ماں کی دعا، دوست کا اعتبار، خاندان کی امید — سب کچھ چند لمحوں میں ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ صرف ایک فرد کا المیہ نہیں،بلکہ معاشرتی احساسِ شکست بھی ہے۔
فلسفے کی زبان میں، خودکشی “امید کے مرنے” کا نام ہے،جبکہ ایمان کی زبان میں یہ “صبر کے ختم ہونے” کی علامت ہے۔دونوں ہی صورتوں میں انسان اپنی روح کی روشنی کھو دیتا ہے۔
تدارک — احساس سے عمل تک
زندگی کو بچانے کا پہلا قدم احساس ہے۔مایوس شخص کو سن لینا، اس کے دکھ کو سمجھ لینا،اکثر دوائی سے زیادہ شفا دیتا ہے۔
- خاموشی توڑیں — دکھ بیان کرنا شرمندگی نہیں، شفا ہے۔
- روحانی رشتہ بحال کریں — دعا، ذکر اور قرآن سے دل کو جڑیں۔
- ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں — یہ کمزوری نہیں، شعور ہے۔
- محبت بانٹیں — ایک لفظ، ایک لمس، ایک مسکراہٹ زندگی بن سکتی ہے۔
- اللہ پر یقین رکھیں — جو دکھ دیتا ہے، وہی شفا کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔
اختتامیہ — زندگی کی صدا
خودکشی زندگی سے فرار نہیں،بلکہ زندگی کی شدت سے ٹوٹنے کی آواز ہے۔جو سنے، وہ بچا لے؛جو سمجھے، وہ زندہ کر دے۔ زندگی ایک مکالمہ ہے —انسان اور خالق کے درمیان، امید اور مایوسی کے بیچ۔جو اس گفتگو کو جاری رکھتا ہے، وہ زندہ ہے۔خودکشی اس مکالمے کا اختتام ہے،مگر اگر انسان ایک لمحہ رک جائے، سوچ لے، سن لے،یا اپنے رب سے کہہ دے:
“میں تھک گیا ہوں، مگر ہارا نہیں”
تو یہی آخری لمحہ، زندگی کا پہلا لمحہ بن سکتا ہے۔
قرآنی روشنی میں انجام:
بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ الشرح: 5–6
یہی آیت دراصل زندگی کا خلاصہ ہے —ہر دکھ کے بعد سکون،ہر اندھیرے کے بعد روشنی،اور ہر ٹوٹنے کے بعد ایک نیا جنم۔

