فریحہ رحمان
گاؤں کی خوشی یا غم کی تقاریب میں وہ دور سے پہچانی جاتی ہے کہ اس کا تعلق کسی اور قبیلے سے ہے۔ 8 اکتوبر کے زلزلے کے بعد وہ اپنی چھوٹی سی بیٹی کے ساتھ آذاد کشمیر سے ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں آئی تھی۔ اس زلزلے میں اس کے گھرمیں وہ اور اس کی بیٹی ہی زندہ بچی تھیں۔ آج بیس سال بعد بھی جب بھی وہ گاؤں کی کسی تقریب میں ملتی ہے تو اس کے غم کی کہانی اس کے چہرے پر واضع پڑھی جا سکتی ہے۔ پل بھر میں اس کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا ۔ اسے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں منتقل ہونے پر مجبور کر دیا۔اس زلزلے نے اس کی ہنستی بستی زندگی کو بدل دیاتھا۔
آج وہ خوش ہے اس کے پاس وہ سب ہے جو ایک انسان کے لئے خوشگوارزندگی گزارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے پر وہ آج بھی ایک اجڑی ہوئی عورت ہے اپنے بچوں شوہر اور گھر کا غم اس کے اندر بسیرا کئے ہوئے ہیے وہ آج بھی اپنے بیتے ہوئے کل کو یاد کر کے روتی ہے۔
مجھے یاد ہے زلزلے ک کچھ ہی مہینوں بعد ایبٹ آباد کے ایک گاؤ ں میں وہ کشمیر سے بیاہ کر آئی تھی۔ ایک بیٹی کی ماں تھی جو زلزلے میں زندہ بچی تھی ۔ قریبی رشتہ داروں نے اس کا نکاح ایبٹ آباد کے ایک بوڑھے آدمی سے کرا دیا تھا۔تاکہ اسے سہا را مل جائے۔پھر وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں نئے لوگوں میں خود کو ڈھالنے کی جدوجہد کرنے لگی۔جس شخص سے نکاح ہوا وہ شادی شدہ اور جوان بیٹیوں کا باپ تھا جبکہ خاتوں کی عمر کم تھی اور بیٹی چھوٹی تھی۔ جوان بیٹیوں کے باپ سے شادی ہوئی تھی تو ہر کوئی اس کہ باتیں کر رہا تھا ۔ویسے بھی دیہات میں کوئی بھی بات ہو سب کو پتا ہوتی ہے ہر آدمی ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتا ہے۔
کشمر سے تھی خوبصورت تو تھی ہی اور اپنی بول چال اور انداز میں بھی سب سے مختلف تھی آج اتنے سالوں بعد نہ اس کی بول چال بدلی نہ لہجہ کشمیر کی ہی لگتی ہے ایسا لگتا ہے اپنے غول سے بچھڑ گئی ہے۔ہاں اب بیٹی جوان ہو گئی ہے اور خاندان میں میں جگہ بھی بن گئی ہے لیکن اپنوں کے بچھڑنے کا دکھ اب بھی تازہ ہے۔
زندگی آگے بڑھ جاتی ہے وقت گزر جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے ہم پہلے سے اچھے حالات میں رہ رہے ہوں پر اپنوں کے بچھڑنے کا غم وہیں رہتا ہے دل کے کونوں کھدروں میں کہیں ڈیرے ڈال لیتا ہے اور پھر ہر خاموش شب سلگتا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر میں 8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو آج 20 برس مکمل ہوگئے، لیکن دو دہائیاں گزرنے کے باوجود اس زلزلے سے متاثر ہونے والے اپنے غموں کو یاد کر کے روتے ہیں ۔ بستیاں کی بستیا ں اجڑ گئیں۔خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے۔جو لوگ بچ گئے ان کے لئے زندگی مشکل ہو گئی۔
مجھے یاد ہے جب زلزلہ آیا تو سب کی طرح ہم بھی باہر کی طرف بھاگے پھر ہم سب اپنے گھر کے شیڈ کو گھورنے لگے کہ یہ کیسے گھوم رہا تھا۔ زلزلہ ختم ہونے کے بعد اندازہ نہیں تھا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ فون آنا شروع ہو گئے ہر کوئی خیریت پوچھ رہا تھا ہمارا یہ پہلا تجربہ تھا پہلے کبھی ایسا ہوا بھی نہیں تھا۔ اسلام آباد میں رہنے کی وجہ سے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یہ زلزلہ اتنا خطرناک تھا ۔ پہلے پہل ایسا ہی لگا کہ جیسے صرفاسلام آباد کا مارگلہ ٹاور زمین بوس ہوا ہے پھر آہستہ آہستہ ملک کے دیگر حصوں سے زلزلے کی تباہ کاریوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔
صبح 8 بج کر 52 منٹ پر ، 7.6 شدت کے زلزلے سے چند لمحوں میں بستیاں ملبے میں بدل گئیں۔ بستیاں اجڑ گئیں اور خواب مٹی میں مل گئےاور ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ اس قیامت خیز زلزلے سے آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔کے پی کے صوبے کا ایک خوبصورت شہر بالاکوٹ جو کہ دریائے کنہار کے کنارے موجود ہے، مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔
8 اکتوبر کا دن آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ملک کیتاریخ کے بدترین قدرتی سانحہ تھا۔آزادکشمیر میں مظفرآباد سے باغ، راولاکوٹ سمیت کئی علاقوں میں تباہی کے دل سوز مناظر تھے۔ ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالی جا رہی تھیں اورلوگ اپنے پیاروں کے مل جانے کے منتظر تھے۔
پانچ لاکھ سے زائد گھر تباہ ہوئے، سینکڑوں کلومیٹر سٹرکیں، پُل اور ذرائع مواصلات تباہ ہوئے، درجنوں اسکول مکمل طور پر قبرستانوں میں بدل گئے، کئی علاقوں میں قائم عمارتیں اور اسپتال زمین بوس ہوگئے، ملبے کے نیچے دب کر اسپتال انتظامیہ کے افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔اس کے علاوہ سول، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس زلزلے کی تباہ کاریوں سے مفلوج ہو چکے تھے۔یہ دن وہاں بسنے والے باسیوں کے دلوں میں ایک ناخوشگوار یاد ہے۔ جھنوں نے بہت کچھ کھو دیا لیکن حوصلے سے آگے بڑھےزندگی کا دامن پھر کئیں نہ کہیں سے تھاما۔اس سانحے نے ان کی زندگیاں تو بدل دیں نہیں کم ہوئے تو صرف ان کے غم۔