وحید مراد
الحاد اور دہریت، عقائد کی فہرست میں سب سے مُہلِک زُمرے میں آتے ہیں۔۔۔۔۔
سوال:کیا عقیدہ ایک وہم ہے یا انسان کی فطری ضرورت؟
جواب: مذہب بیزار طبقے کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انسان اُس وقت آزاد ہوتا ہے جب وہ عقائد کی زنجیروں سے نکل جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا انسان واقعی عقیدہ چھوڑ سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک اعتقادی وجود ہے۔ جس طرح انسان مکان کے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح عقیدے کے بغیر بھی زندگی کا وجود ناممکن ہے ۔ الحاد اور دہریت بھی عقیدہ ہیں کیونکہ انکار بذاتِ خود ایمان کی ایک صورت ہےبس وہ منفی سمت میں ہوتا ہے۔ دہریہ جب خدا کا انکار کرتا ہے تو وہ اس نظریے کو مانتا ہے کہ خدا نہیں ہے اور یہی اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ یقین اور دعوے کے ساتھ کہنا کہ "میرا کوئی عقیدہ نہیں” دراصل انکار کے عقیدے سے وابستگی کا اظہار ہے ۔
عقیدہ، انسانی شعور کی فطری ساخت ہے۔ یقین کے بغیر شعوری زندگی ممکن ہی نہیں کیونکہ عمل کی بنیاد یقین پر قائم ہوتی ہے۔ یہی یقین جب درست بنیادوں پر قائم ہوتا ہے تو ایمان بن جاتا ہے اور جب غلط تصورات پر مبنی ہو تو وہم یا گمراہی۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہرعقیدہ زنجیر ہے، درست نہیں ہاں البتہ الحاد اور دہریت کا عقیدہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہے۔ زنجیر وہ ہوتی ہے جو انسان کو سچائی سے روکے مگر درست عقیدہ وہ روشنی ہے جو انسان کو مقصد، سمت اور معنویت عطا کرتی ہے۔
سائنس بھی عقیدے سے خالی نہیں۔ سائنس کا سب سے پہلا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات ایک نظم اور قوانین کے تابع ہے اور یہ قوانین دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مفروضہ کسی تجربے سے ثابت نہیں بلکہ ایک اعتقادی بنیاد ہے جس پر ساری سائنس کھڑی ہے۔ عقیدہ اگر وہم ہوتا تو انسان ہمیشہ بے یقین، بے سمت اور اضطراب میں مبتلا رہتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قوم، ہر تہذیب اور ہر دور میں انسان نے کسی نہ کسی عقیدے کو تھاما، چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ اس سے واضح ہے کہ عقیدہ کوئی اتفاقی مظہر نہیں بلکہ انسانی فطرت کی داخلی ضرورت ہے۔
سوال : کیا مذہب محض قدیم اساطیر سے اخذ کیا گیا ہے؟
جواب : یہ ایک سطحی اور غیر علمی بات ہے۔ مذہب، فلسفے اور اساطیر کے درمیان کچھ واقعاتی مشابہتیں ضرور ملتی ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مذہب نے اپنی بنیاد اساطیر یا فلسفے سے لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں الہامی ہدایات انسانوں تک پہنچتی رہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ تحریف اور تمثیل کا شکار ہو گئیں جس کے نتیجے میں وہی الہامی حقائق بعد کی تہذیبوں میں کہانیوں اور دیومالاؤں کی شکل اختیار کر گئے۔ مذہب اپنی اصل میں وحی،عقل، اخلاق اور مقصدیت کا جامع نظام ہے جبکہ اساطیر محض تخیلاتی کہانیاں ہیں جن میں نہ کوئی ہمہ گیر اخلاقی اصول ہے نہ رہنمائی کا نظام۔
سوال : کیا جدید اخلاقیات مذہب سے آزاد ہے اور یہ صرف فلسفے کا کارنامہ ہے؟
جواب : آزادی، مساوات، عدل اور رواداری جیسے تصورات ادبی اورفلسفیانہ انداز سے بھی بیان کیے جاتے ہیں مگر ان کی جڑیں مذہبی تعلیمات میں پیوست ہیں۔ توحید کا عقیدہ مساوات کا سب سے مضبوط اصول پیش کرتا ہے کہ سب انسان ایک خالق کی مخلوق ہیں۔ عدل و رحم کے اصول قرآن، تورات اور انجیل نے واضح کیے۔ فلسفہ ان اصولوں کی تعبیر کر سکتا ہے مگر ان کی تخلیق نہیں۔ مذہب نے ہی انسانی جان کی تکریم ، کمزوروں کی حفاظت اور انصاف کا تصور دیا۔
سوال : کیا مذہب جدید ریاست اورترقی یافتہ دنیا سے بے دخل ہو چکا ہے؟
جواب :بظاہر مغربی ریاستوں نے منظم مذہبی اداروں کو سیاسی نظام سے الگ کیا مگر اخلاقی بنیادیں اب بھی مذہب ہی سے ماخوذ ہیں۔ مغربی ماڈل آفاقی نہیں، محض ایک تاریخی اور جغرافیائی تجربہ ہے۔قانون، انصاف، انسانی حقوق اور انسانی وقار جیسے مذہبی اصول اگر اخلاقیات سے نکال دیے جائیں تو جدید ریاست کی عمارت ڈھے جائے۔ مذہب آج بھی انسانیت کی سب سے بڑی اجتماعی حقیقت ہے۔ پیو ریسرچ اور گیلپ جیسے عالمی سرویز بتاتے ہیں کہ دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ ہے اور باقی بھی عقلی یا دیومالائی عقائد رکھتی ہے۔ یہ کہنا کہ مذہب ختم ہو گیا ایک فکری وہم ہے۔ ہاں مذہب کے اظہار اور فہم کے طریقوں میں جدت ضرور پیدا ہوئی ہے مگر انسانی فطرت بدلی نہیں۔ انسان آج بھی معنی، مقصد اور یقین کی تلاش میں ہےاور یہ سب عقیدہ فراہم کرتا ہے وہم نہیں۔
سوال: کیا دہریت اور الحاد انسان کو آزادی دیتے ہیں؟
جواب: یہ صرف دعویٰ ہے حقیقت میں یہ آزادی نہیں بلکہ ایک نئی غلامی ہے ۔ ذہنی و نفسیاتی غلامی، احساس کی غلامی اور بے سمتی کی غلامی۔ یہ نظریات انسان کو اندرونی کرب، اضطراب اور بے معنویت میں دھکیل دیتے ہیں۔ مغرب کی فکری تاریخ میں کئی بڑے نام ایسے گزرے جو اسی ذہنی اذیت میں مبتلا ہو کر زندگی سے مایوس ہو گئے۔ ارنسٹ ہیمنگوے، ورجینیا وولف اور سلویا پلاتھ جیسے عظیم لکھاری اپنی ہی سوچ کے بوجھ تلے دب کر خودکشی پر مجبور ہوئے۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہریت اور الحاد بظاہر آزادی دیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ انسان کو مایوسی اور خوکشی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ا لحاد اور دہریت، عقائد کی فہرست میں سب سے مُہلِک زُمرے میں آتے ہیں۔
سوال: کیا مذہب صرف نواہی اور پابندیوں کا بوجھ ہے؟
جواب: مذہب بیزار طبقے کا یہ اعتراض عام ہے کہ مذہب انسان پر ایک “غیر منطقی دباؤ” ڈال دیتا ہے گویا آزادی کو چھین لیتا ہے۔ لیکن کیا آزادی کا مطلب ہر قید سے نکل جانا ہے؟ کیا انسان کی فطرت واقعی لامحدود آزادی چاہتی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت حدود کے بغیر پنپ نہیں سکتی۔ جیسے فضا میں اڑنے کے لیے فضائی قوانین کی محتاجی ہے ویسے ہی انسان اپنی روحانی اور اخلاقی پرواز کے لیے الٰہی اصولوں کا محتاج ہے۔مذہب کی حدود دراصل آزادی کی حفاظت کرتی ہیں اسے ضائع نہیں کرتیں۔ یہ بوجھ نہیں بلکہ صحیح سمت کا تعین ہے۔اگر زندگی اصولوں کے بغیر ہو تو انجام افراتفری ہے ۔جیسے ٹریفک کے قوانین مٹ جائیں تو آزادی نہیں بلکہ تصادم جنم لیتا ہے۔”دین میں جبر نہیں” کا مطلب ہی یہی ہے کہ مذہب اطاعت کے فطری جذبے کوقبول کرتا ہے اور اسےشعور اور مقصد کے ساتھ ایک سمت دیتا ہے۔
سوال: کیا مذہبی تعلیم و تربیت انسان کو صرف سدھاتی ہے؟اور کیا آزاد فکری کے لیے نئی نسل کا مذہب سے آزاد ہونا ضروری ہے؟
جواب: کوئی بھی تہذیب اپنی نئی نسل کو آزاد نہیں چھوڑتی۔ ہر تہذیب اپنی اقدار، اخلاقیات اور نظریاتی سانچے کے مطابق تربیت کرتی ہے۔ اگر یہ تربیت شعوری طور پر نہ ہو تو لاشعوری طور پر ضرور ہوتی ہے۔ دہریت اور لامذہبیت بھی اپنا تربیتی نظام رکھتی ہیں مگر ان کی تربیت انسان کو مقصد نہیں دیتی ۔ ان کے پاس صرف سوال ہیں، جواب نہیں نتیجاً نئی نسل کا ذہن آزاد تو ہو جاتا ہے مگر بےسمتی اور خلاء کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب انسان کو "سدھایا ہوا ریوڑ” بنا دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کون سی تہذیب ہے جو اپنی نئی نسل کو اقدار اور اخلاق سے خالی چھوڑ دیتی ہے؟ تعلیم و تربیت بذاتِ خود سدھانے کا عمل ہے ۔ سدھانا صرف جسمانی نظم و ضبط تک محدود نہیں یہ نظریاتی، روحانی اور اخلاقی تعمیر کا عمل بھی ہے۔ قرآن بار بار انسان کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے:“اَفَلَا یَتَفَکَّرُون؟” “اَفَلَا یَتَدَبَّرُون؟”یہ سوال دراصل مکالمے کا دروازہ کھولتے ہیں جو انسان کو اندھی تقلید اور بے سمتی سے نکال کر شعور اور بصیرت کے راستے پر لے آتے ہیں۔اس لیے مذہب کی تعلیم و تربیت سدھانے کے بجائے شعور بیدار کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے جو انسان کو ریوڑ نہیں بناتی بلکہ ایک باوقار، باشعور اور بامقصد وجود عطا کرتی ہے۔
سوال: کیا تخلیق صرف آزادی سے ممکن ہے؟
جواب: یہ کہنا درست ہے کہ تخلیق کے لیے حریت فکر ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی آزادی؟اگر آزادی کا مطلب حدود سےباہر نکلنا ہے تو یہ تخلیق نہیں بلکہ انتشار ہے۔ اصل تخلیق تبھی ممکن ہے جب آزادی کسی اصول، ذمہ داری اور اخلاقی دائرے کے اندر ہو۔شاعر زبان کے قواعد کا پابند ہوتا ہے تبھی وہ غزل کہہ پاتا ہے۔ موسیقار اگر دھن کے بنیادی اصول توڑ دے تو موسیقی باقی نہیں رہتی۔ مصور اگر تناسب کا خیال نہ رکھے تو آرٹ بگڑ جاتا ہے۔ مذہب تخلیق کو روکتا نہیں بلکہ اسے معنی اور مقصد عطا کرتا ہے۔ اسلامی فنِ تعمیر، خطاطی، اور شاعری اس بات کی روشن مثالیں ہیں کہ مذہب نے تخلیق کو دبایا نہیں بلکہ اسے جِلا بخشی۔
سوال: کیا مذہب انسان کی تخلیقی قوت کو دباتا ہے؟
جواب: یہ تاثر غلط ہے کہ مذہب انسان کو صرف اطاعت کا پابند بناتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب نے ہی انسانی تخلیق کو نئی سمت، گہرائی اور وقار دیا۔ اسلامی تہذیب میں فنونِ لطیفہ، سائنس، فلسفہ اور ادب سب مذہبی فکر کے زیرِ اثر پروان چڑھے۔ قرآن بار بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کائنات میں تدبر کی ترغیب دیتا ہے اور یہی غور و فکر تخلیق کی اصل بنیاد ہے۔ مذہب اطاعت سکھاتا ہے، لیکن وہ اطاعت جو شعور کے ساتھ ہو۔ وہ آزادی دیتا ہے مگر ایسی آزادی جو انسان کو مقصد سے جوڑے۔ یہی توازن تخلیق کا سرچشمہ ہے۔
سوال: کیا وحی اندھا ایمان مانگتی ہے؟
جواب: یہ لوگ کہتے ہیں کہ وحی پر عمل یا تو اندھا ایمان ہے یا پھر عقل سے زبردستی لاجیکل بنانے کی کوشش۔ مگر ایمان عقل کا دشمن نہیں یہ وجہ ہے قرآن مجید میں غور و فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی بار بار تاکید آئی ہے۔وحی اندھی تقلید نہیں چاہتی، بلکہ شعوری ایمان کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایمان اور عقل ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے روشنی اور آنکھ۔جدید سائنس بھی اعتراف کرتی ہے کہ کائنات میں ایک حیرت انگیز نظم اور تناسب پایا جاتا ہے۔ نظم ہمیشہ کسی عقلِ اعلیٰ کا پتہ دیتا ہے نہ کہ اندھی اتفاقیت کا ۔
سوال: کیا وحی پر تفکر کرنے سے اختلاف اور فرقہ واریت پیدا ہوئی؟
جواب: مذہب بیزار طبقہ کہتا ہے کہ جیسے ہی عقل وحی پر غور کرتی ہے تو نئے نئے فہم وجود میں آتے ہیں اور پھر فرقے بن جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اختلاف وحی سے نہیں بلکہ انسانی فہم کی محدودیت سے پیدا ہوتا ہے۔وحی کی روشنی یکساں ہےلیکن عقل کے آئینے مختلف ہیں کوئی صاف ہے، کوئی دھندلا۔ قرآن خود کو “بیان للناس” یعنی سب کے لیے واضح بیان کہتا ہے ۔ فرقہ واریت دراصل انسانی کمزوری اور اپنی رائے کو مطلق بنا لینے کا نتیجہ ہے، نہ کہ وحی کی کمزوری۔
قانونِ فطرت کو سب مانتے ہیں مگر سائنس دان اس کی تعبیرات میں مختلف ہوتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب فطرت مبہم ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہی اصول وحی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ابنِ خلدون نے مقدمہ میں لکھا کہ اختلاف انسانی معاشروں کی فطری حالت ہے، لیکن اصل بنیاد ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔
سوال: کیا فرقہ واریت مذہب کی ناکامی ہے؟
جواب:یہ کہنا کہ چونکہ مذہب میں مختلف فرقے پیدا ہوئے اس لیے یہ مذہب کی ناکامی ہے، خود ایک غیر منطقی استدلال ہے۔کیا قانون کی مختلف تشریحات قانون کی ناکامی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اصل قانون واضح ہوتا ہے، اختلاف صرف تشریح کی سطح پر آتا ہے۔ اگر اختلاف مذہب کی ناکامی ہوتا تو سائنس بھی ناکام ٹھہرتی کیونکہ وہاں بھی رائے اور تعبیر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ فرقہ واریت وحی کی نہیں، انسانی تعصب اور خود پسندی کی پیداوار ہے۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں اعتقادی وجود رکھتا ہے۔ عقیدہ ہی اس کی زندگی کی بنیاد ہے ۔دہریت اور الحاد بھی عقیدے ہی کی صورتیں ہیں مگر وہ انسان سے مقصدیت، معنویت اور سکون چھین لیتے ہیں۔ تعلیم و تربیت ہمیشہ اقدار کے مطابق انسان کو ڈھالتی ہے اور مذہب اس تربیت کو بامقصد سمت دیتا ہے۔جو فلسفے انسان کو مذہب سے کاٹ کر آزادی کا نعرہ دیتے ہیں وہ دراصل اسے بے معنویت، کرب اور تنہائی کی طرف لے جاتے ہیں۔انسان کی بقا، شناخت اور روحانی معنویت صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہے۔مذہب کو اپنی سچائی کے دفاع کی ضرورت نہیں البتہ اس کے عقائد کا فکری دفاع ان معصوم اذہان کو گمراہی سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے جو سوال کرتے ہیں مگر جواب تلاش نہیں کرپاتے۔