Skip to content

مذہب، فلسفہ اور سائنس میں عقیدے کا کردار (1)مذہب بیزار طبقے کے مغالطوں کے جوابات

شیئر

شیئر

تحریر: وحید مراد

مذہب بیزار طبقہ جب مذہب سے الگ ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے ایک شدید نفسیاتی بے چینی اور وجودی خلا کا شکار ہوتا ہے۔ یہ خلا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ انکار کے بعد زندگی کا کوئی ایسا مرکز باقی نہیں رہتا جس پر معنویت اور مقصدیت قائم ہو سکے۔ اسی کیفیت کو چھپانے کے لیے وہ مذہب کے خلاف سوال اٹھاتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں کہ آخر وہ چیز جو انہوں نے رد کر دی ہےباقی انسان کیوں اپنائے ہوئے ہیں۔ اس اندرونی حسد اور اضطراب کے زیرِ اثر وہ بار بار مذہب اور عقیدے پر حملے کرتے ہیں۔ ان کے چند سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں:

سوال: عقیدہ کیا ہے؟
جواب: عقیدہ وہ مرکزی یقین ہے جس پر انسان کی پوری شخصیت، سوچ اور عمل استوار ہوتا ہے۔ یہ دل و دماغ میں وہ گہرا یقین ہے جو باقی تمام فیصلوں کو شکل دیتا ہے۔ عقیدہ صرف مذہب تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہر انسان کسی نہ کسی عقیدے پر کھڑا ہوتا ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میرا کوئی عقیدہ نہیں وہ ’’بے عقیدگی اور انکار‘‘ کو ہی عقیدہ بنا تاہے۔ مذہب میں عقیدہ وحی اور ایمان سے تشکیل پاتا ہے، فلسفے میں چند بنیادی بدیہات اور مفروضات سےاور سائنس میں کائنات کے قوانینِ فطرت پر ایمان سے۔ اس طرح کوئی بھی علم اور دائرۂ فکر عقیدے سے خالی نہیں رہ سکتا۔

سوال: عقیدہ مذہب میں کیسے کام کرتا ہے؟
جواب: مذہب میں عقیدہ انسان کو ایک کائناتی نظام اور مقصد سے جوڑ دیتا ہے۔ وحی اور ایمان کے ذریعے وہ یہ جانتا ہے کہ زندگی بے مقصد نہیں بلکہ ایک خالق کی دی ہوئی امانت ہے جس کے سامنے جواب دہی ہے۔ مثلاً توحید کا عقیدہ یہ شعور دیتا ہے کہ کائنات کا خالق اور مالک اللہ ہے اور انسان اس مالک کے حضور جواب دہ ہے۔ یہی شعور انسان کو اخلاقی ذمہ داری، عدل، رحم، خدمت اور مقصدیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر بڑی تہذیب، جو مذہب سے وابستہ رہی اخلاقی اقدار اور سماجی انصاف کی بنیاد پر کھڑی ہوئی۔

سوال: کیا فلسفہ اور علم عقیدے سے آزاد ہیں؟
جواب: فلسفہ کبھی بھی عقیدے سے خالی نہیں رہا۔ ہر فلسفہ چند مفروضات پر کھڑا ہوتا ہے۔ مثلاً یہ عقیدہ کہ عقل حقیقت تک پہنچ سکتی ہے یا یہ کہ کائنات قابلِ فہم ہے۔ یہ عقائد بغیر کسی سائنسی ثبوت کے مان لیے جاتے ہیں۔ کانٹ نے اپنی کتاب Critique of Pure Reason میں اعتراف کیا کہ انسانی عقل بھی کچھ بدیہی حقائق پر کھڑی ہے اگر یہ بدیہات اور عقائد نہ ہوں تو فلسفہ سوچ کے پہلے قدم سے بھی محروم ہو جائے۔

الحاد اور دہریت خود کو بے عقیدہ ظاہر کرتے ہیں مگر درحقیقت دہریت کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں اور الحاد کا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ عقائد بھی اتنے ہی غیر مرئی ہیں جتنے کسی مذہب کے عقائد۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذہب اپنے عقیدے کو واضح کرتا ہے جبکہ فلسفہ و الحاد اسے پسِ منظر میں چھپا دیتے ہیں۔

سوال: مذہب کے غیب اور سائنس کے نامعلوم میں کیا فرق ہے؟
جواب: مذہب بیزار لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب کا ’’غیب‘‘ محض ایک مفروضہ ہے جو وقت کے ساتھ علم کے ذریعے معلوم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اعتراض بنیادی طور پر غلط ہے۔ سائنس کا ’’نامعلوم‘‘ وہ حقیقت ہے جو انسانی تجربے کے دائرے میں آ سکتی ہے، مثلاً نئی کہکشائیں یا ذرات۔ مذہب کا غیب وہ حقائق ہیں جو انسانی تجربے اور حواس سے ماورا ہیں لیکن وحی کے ذریعے انسان کو بتائے گئے ہیں۔ مثلاً آخرت اور خدا کی ذات۔ ان کو محض مفروضہ کہنا ایسے ہی ہے جیسے کسی تاریخی شہادت کو افسانہ کہنا۔ مذہب کے غیب کو وحی کی خبر نے حقیقت کا درجہ دیا ہے جبکہ سائنسی نامعلوم صرف امکانات ہیں۔

سوال: سائنس میں عقیدہ کیسے کام کرتا ہے؟
جواب: سائنس کی بنیاد ہی عقیدے پر ہے۔ سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ کائنات ایک مربوط اور منظم نظام ہے اور اس کے پیچھے قوانینِ فطرت کارفرما ہیں۔ یہ عقیدہ خود سائنسی طریقے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی یہ ماننے سے انکار کر دے کہ کائنات قوانین کے تحت چل رہی ہے تو سائنس کا پورا ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ کارل پوپر نے کہا تھا کہ سائنس خود کچھ مفروضات پر کھڑی ہے جنہیں تجربے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے بغیر سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ مذہب، فلسفہ اور سائنس تینوں اپنی بنیاد میں عقیدے سے وابستہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذہب اپنے عقیدے کو ظاہر کرتا ہے، فلسفہ اسے منطقی زبان میں ڈھالتا ہے اور سائنس اسے پسِ پردہ رکھ کر تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے استعمال کرتی ہے۔

سوال : کیا انسان بغیر عقیدے کے زندہ رہ سکتا ہے؟
جواب : انسان اعتقادی وجود ہے۔ جس طرح مکان، چھت اور ٹھکانے کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں اسی طرح عقیدے کے بغیر انسانی وجود کا بھی تصور ممکن نہیں۔ عقیدہ وہ بنیاد ہے جس پر علم، فلسفہ اور تہذیب کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کا کوئی عقیدہ نہیں درحقیقت وہ انکار کو ہی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اور ہر فکر اسی دائرے میں قید ہو جاتا ہے۔ اس لیے انکار بھی عقیدہ ہے اور اس پر قائم رہنا اعتقاد ہی کی ایک شکل ہے۔

سوال : کیا صرف عقل و علم کے ذریعے انسان حقیقت تک پہنچ سکتا ہے؟
جواب : عقل اور علم انسانی زندگی میں ضروری ہیں لیکن یہ اپنی حدود رکھتے ہیں۔ علم کا کام یہ ہے کہ نامعلوم کو معلوم میں بدلے مگر ہر دور میں کچھ ایسے حقائق باقی رہ جاتے ہیں جو عقل اور تجربے کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ محبت، نفرت، وجدان، خواب، روحانی کیفیات اور ماورائی تجربات کو عقل پوری طرح سمجھ نہیں پاتی۔ مذہب غیبی حقیقتوں پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایمان عقل کا انکار نہیں بلکہ اس کا تکملہ ہے کیونکہ ایمان کے بغیر علم ادھورا اور زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے۔

سوال : کیا مذہب کو دفاع اور ثبوت کی ضرورت ہے؟
جواب : مذہب انسانی فطرت کا حصہ ہے، اتنا ہی پرانا جتنا خود انسان۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے، جیسے پانی اور ہوا۔ اس لیے مذہب اپنی اصل میں کسی دفاع یا ثبوت کا محتاج نہیں۔ البتہ مذہبی عقائد کا دفاع ضرور بامعنی عمل ہے کیونکہ انسان کی بقا اور نسلوں کی حفاظت اسی سے وابستہ ہے۔ جو مذہب کا انکار کرتا ہے وہ بھی کسی نہ کسی عقیدے پر قائم ہوتا ہے اور اپنے عقیدے کا دفاع کرتا ہے۔

سوال :کیا فلسفے نے علوم پیدا کیے ہیں؟
جواب : بلاشبہ فلسفہ علوم کا سرچشمہ رہا ہے۔ فلاسفہ نے طبیعیات، منطق، حیاتیات، ریاضی اور تاریخ کی بنیاد رکھی۔ لیکن آج کے دور میں ہر علم اپنی آزاد بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسفہ ابتدا میں ذریعہ تھا مگر منزل نہیں۔ آج فلسفہ اپنی بقا کے لیے مذہب کی ہمراہی کا محتاج ہے کیونکہ اگر وہ محض دہریت اور انکار کا سہارا لے تو انسانیت کو معنویت دینے سے محروم رہ جاتا ہے۔

سوال : کیا مذہب کا دائرہ صرف تقدس اور روایت تک محدود ہے اور فلسفہ یا سائنس اس سے آزاد ہیں؟
جواب : مذہب، فلسفہ اور سائنس تینوں انسان کی حقیقت کی تلاش کے ذرائع ہیں لیکن ان کے دائرے الگ الگ ہیں۔ سائنس مشاہدے اور تجربے تک محدود ہے، فلسفہ عقل اور فکر کی وساطت سے آگے بڑھتا ہے اور مذہب وحی اور غیب کی خبر دیتا ہے۔ ان تینوں کو الگ خانوں میں رکھ کر دیکھنا ایک بڑی فکری غلطی ہے۔ درحقیقت یہ تینوں ایک دوسرے کے تکملے ہیں اور ان میں سب سے وسیع اور ہمہ گیر دائرہ مذہب کا ہے، جو باقی دونوں کو اپنی جگہ پر بامعنی کرتا ہے۔

سوال : کیا فلسفہ مذہب کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
جواب :فلسفے نے ہمیشہ مابعد الطبیعیات کو موضوع بنایا ہے۔ اگر فلسفہ خدا، روح اور کائنات کے مقصد اور غایت پر بات نہ کرے تو وہ اپنی اصل روح کھو دیتا ہے۔ دہریت کے ساتھ فلسفہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا کیونکہ دہریت مقصد اور معنویت کو رد کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فلسفہ یا تو مذہب سے ہم آہنگ ہو کر بقا پاتا ہے یا محض ایک تجریدی کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔ نیٹشے نے جب "خدا مر گیا ہے” کا اعلان کیا تو یورپ جلد ہی شدید داخلی بحران اور دو عالمی جنگوں میں جھونک دیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کے بغیر فلسفہ زندگی کو معنی نہیں دے سکتا۔

مسلمان فلاسفہ نے مذہب اور فلسفے کو یکجا کر کے ایک ایسی فکری ہم آہنگی پیدا کی جس نے نہ صرف اسلامی تہذیب کو جِلا بخشی بلکہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کو بھی راستہ دکھایا۔ اس کے برعکس جب فلسفہ کو مذہب سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ مادہ پرستی اور الحاد کے جال میں پھنس گیا اور اس عمل نے انسانیت کو مزید بحران میں ڈال دیا۔

فلسفے کی بقا اسی میں ہے کہ وہ مذہب کے ساتھ کھڑا ہو کیونکہ مفروضہ بذاتِ خود ایک عقیدہ ہے اور اگر فلسفہ عقیدے سے دستبردار ہو جائے تو محض افسانہ اور فکشن رہ جاتا ہے۔ ( جاری ہے)

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں