تحریر: عامر ہزاروی
صمود فلوٹیلا میں چوالیس ممالک کے پانچ سو افراد شریک تھے ، چالیس سے پچاس کشتیاں تھیں ، انسانوں کا یہ عظیم گروہ غزہ کا محاصرہ توڑنے گیا تھا ، یہ قافلہ انسانوں پر مشتمل تھا ، اس قافلے میں شامل لوگوں کا تعلق ایک قوم ، ایک مذہب ، ایک رنگ ، ایک نسل ، اور ایک پیشے سے نہیں تھا ،ان کا غزہ کیساتھ دل اور احساس کا رشتہ تھا ، اس قافلے میں کئی حسینائیں بھی شامل تھیں جو سر پر رومال باندھے سرزمین مقدس کی طرف جا رہی تھیں ، وہ لوگ بھی شامل تھے جن کا کوئی عقیدہ نہیں تھا ، جو مذہب سے بالاتر ہو کر دنیا کو آگاہ کر رہے تھے کہ یہاں ایک خطے ایسا بھی ہے جو دہشت گرد ریاست کے رحم و کرم پر ہے ، جو فرعون کا کردار ادا کرتے ہوئے بچوں کو مار رہا ہے ،اب یہ لوگ گرفتار کر لیے گئے ہیں ، سامنے نظر آ رہا تھا کہ دہشت گرد ریاست انہیں گرفتار کر لے گی۔ اس قافلے کے اقدام سے غزہ والوں کا مقدمہ دنیا کے سامنے آئے گا ، ریاستیں متحرک ہوں گی ، سول سوسائٹی کے لوگ متحرک ہوں گے اور دہشت گرد ریاست کا مکروہ چہرہ دنیا دیکھے گی ، یہ آئیڈیا جس بھی دماغ کا تھا کمال تھا ،بات یہ ہے کہ فلسطین کا مقدمہ مظلوموں کا مقدمہ ہے ، مظلوموں کے لیے آواز اٹھانے والا ، عالمی و لوکل ضمیر جھنجھوڑنے والا کوئی فرد ہو ، کوئی گروہ ہو ، مسلم ہو یا غیر مسلم ، وہ ہمارا ہیرو ہے ، یہ لوگ انسانوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔
سینیٹر مشتاق اس قافلے کا حصہ تھے وہ گرفتار ہوئے ، انہوں نے ہماری طرف سے بھی حق ادا کیا ہے ، خدا سب کو رہائی نصیب کرے –