Skip to content

گوجری زبان کی منظوری میں ہمارا المیہ

شیئر

شیئر

تحریر: لقمان ھزاروی

ہمارا المیہ یہی رہا ہے کہ جب سردار یوسف صاحب نے گوجری زبان کو نصاب میں شامل کرنے کی قرارداد صوبائی اسمبلی میں پیش کی تو اس وقت ہم سب نے دل سے اس کی تحسین کی اور خوشی کا اظہار کیا۔ یہ لمحہ واقعی ہماری زبان اور شناخت کے لیے ایک سنگ میل تھا۔ لیکن افسوس کہ بعد میں نہ تو ہم نے اس قرارداد پر فالو اپ کیا اور نہ ہی اپنی جانب سے کوئی مؤثر عملی اقدامات کیے۔ سردار صاحب نے اگر قرارداد پیش کی تھی تو ان پر بھی لازم تھا کہ اس کو بار بار اسمبلی میں اُٹھاتے رہتے اور فالو آن کرتے۔ شاید انہوں نے جو سمیٹنا تھا وہ قبل از وقت سمیٹ کر لاعلم ہوگئے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ کچھ دیگر زبانوں کو اسمبلی میں سرکاری سطح پر بولنے کی اجازت مل گئی ہے لیکن گوجری زبان کو یہ حق تاحال نہیں ملا۔ یہ لمحہ ہمارے لیے بیداری کی گھنٹی ہے۔ ہمیں اب مزید غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں نہ صرف بابر سلیم سواتی صاحب جیسے با اثر رہنماؤں کے سامنے یہ مسئلہ بھرپور طریقے سے رکھنا ہے بلکہ ساتھ ہی اپنے گجر نمائندوں کو بھی جگانا ہے، کیونکہ اصل کردار انہی کا ہے۔ سردار شاہ جہاں یوسف ایم پی اے ہیں اور انہیں اسمبلی کے حالات کی خبر ہی نہیں، کیا ہونے لگا یے اور کیا ہوگا شاید یہ ان کی ترجیح ہی نہیں تھی۔نہ اب تک اس پر ان کا پالیسی بیان نظروں سے گزرا اور نہ کوئی اور اقدام دیکھنے کو ملا۔ اب وہ پاکستان آئے ہیں تو ان کا فرض بنتا ہے کہ اس کے لیے دن رات ایک کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔

زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری تاریخ، ثقافت اور شناخت کی پہچان ہے۔ اگر ہم خود اپنی زبان کے حق میں آواز نہیں اٹھائیں گے تو کوئی دوسرا بھی ہمارے لیے یہ جدو جہد نہیں کرے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر آگے بڑھیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنی زبان کے فروغ کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کریں۔

یہ موقع ہمارے لیے ایک نئے عزم کا تقاضا کرتا ہے۔ گوجری زبان کے حق کے لیے جدو جہد صرف ایک قرارداد پر ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے، جس میں ہم سب اپنی ذمہ داریاں پہچانیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو یہ حق دلائیں کہ وہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنی شناخت پر فخر کر سکیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں