وحید مراد
انسانی تاریخ میں وقتاً فوقتاً مختلف سماجی و سیاسی نظریات اور فلسفے ابھرتے رہے۔ کبھی مساوات کے نام پر سوشلزم اور کمیونزم نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا، کبھی آزادی کے علَم بردار کے طور پر لبرل ازم سامنے آیا، کبھی سیکولرازم نے مذہب کو محض ذاتی دائرے تک محدود کرنے کی کوشش کی اور کبھی فیمن ازم نے عورت کے حقوق کی بازیافت کا دعویٰ کیا۔ ان تمام نظریات نے تعلیم، سیاست اور معاشرت پر اپنے اثرات ضرور ڈالے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی خلا میں پیدا نہیں ہوئے۔ یہ سب دراصل مذہب پر مبنی تہذیبوں ہی کی کوکھ سے پھوٹے اور آج تک اسی ورثے سے اپنی بقا کشید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب سے انحراف کے باوجود ان میں کسی نہ کسی درجے میں مقصدیت اور اخلاقی غایت باقی رہی۔ اگرچہ یہ تصورات یک رُخے اور جزوی تھے مگر بالکل بے معنویت کے قائل نہیں تھے۔ ان کی حیثیت وقتی مسائل کے علاج اور جزوی اصلاحی کوششوں سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ ایمان، یقین اور روحانی اقدار کے کسی ہمہ گیر اور پائیدار متبادل کی صورت کبھی اختیار نہ کر سکے۔
ہمارے ہاں جب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ کو مختلف نظریات اور فلسفے پڑھائے جاتے ہیں تو زیادہ ترزور ان کے مثبت پہلوؤں پر ہی دیا جاتا ہے جبکہ ان کے اندرونی تضادات اور محدود دائرۂ کار کو عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رٹا کلچر کے زیرِاثر پروان چڑھے اساتذہ سہل پسندی کے باعث ان نظریات کی کتابی افادیت تو گنوا دیتے ہیں مگر ان کے نقصانات پر گفتگو نہیں کرپاتے۔ اس سلسلے میں جس گہرے مطالعے، تحقیق اور تقابلی نظر کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے نہ وقت رکھا جاتا ہے اور نہ تیاری کی جاتی ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ شدہ مواد ہی سبق بن کر سامنے آتا ہے اور طلبہ کو محض رٹوا دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں تنقید اور تجزیے کی فضا باقی نہیں رہتی اور یوں ناتجربہ کار اذہان ان فلسفوں کو حتمی صداقت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور بتدریج زندگی کے اصل سرچشمے یعنی ایمان اور یقین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مغرب میں متعدد معاشرتی و سیاسی تجربات ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہر تجربے کے تضادات اور کمزوریاں خود ہی آشکار ہو گئیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کا انجام پوری دنیا نے لاکھوں انسانوں کی قربانی، سیاسی جبر اور معاشی تباہی کی صورت میں دیکھا۔ لبرل ازم اور فیمن ازم نے بعض میدانوں میں اثرات ضرور ڈالے مگر ہر جگہ اور ہر ماحول میں یکساں طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ مخصوص سیاسی، معاشی اور مادی تناظر میں کسی نظریے یا تھیوری سے جزوی فائدہ اٹھانے کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جہاں ان نظریات کو ایمان کے متبادل کے طور پر اپنایا گیا وہاں زندگی کی معنویت کمزور پڑ گئی اور سماجی الجھنیں جنم لینے لگیں۔ جہاں مذہبی روایات، ثقافتی شناخت اور اخلاقی بنیادوں کوپس پشت ڈالتے ہوئے ان تھیوریز کو حقوق یا سماجی انصاف کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا وہاںمعاشرتی انتشار اور ردعمل کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
الحاد اور دہریت کا معاملہ مذکورہ سب نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ یہ محض سیاسی یا معاشی نظام کو متاثر نہیں کرتے بلکہ پورے انسانی ضمیر اور احساس کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ دہریت اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ یہ صرف خدا کے وجود سے انکار نہیں کرتی بلکہ مقصدِ حیات، معنویت اور اخلاقی بنیادوں کو بھی بے اصل قرار دیتی ہے۔ انسان کو محض ایک حیاتیاتی حادثہ یا میکانیکی مشین سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صحیح اور غلط کی تمیز دھندلا جاتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو دیگر ازمز کو الحاد کے مقابلے میں نسبتاً کم خطرناک بناتا ہے۔ اسی لیے مغرب کے کئی مفکرین نے بھی عدمیت(Nihilism)کے خطرات کی نشاندہی کی ہے اور واضح کیا ہے کہ معنویت کا زوال سماجی اور اخلاقی بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کوئی بڑی تہذیب الحاد پر قائم نہیں ہوئی بلکہ ہر تہذیب کی جڑ کسی نہ کسی مذہبی یا روحانی روایت میں پیوست رہی ہے۔ الحادی ریاستیں، جیسے سوویت یونین یا ماؤ کا چین، بالآخر اپنی بنیادیں خود کھوکھلی کر کے زوال اور انتشار کا شکار ہوئیں۔ دہریت زندگی کو ایک اندھا حادثہ قرار دیتی ہے مگر انسانی ضمیر گواہی دیتا ہے کہ یہ کائنات محض اتفاق نہیں۔ محبت، عدل، قربانی اور امید محض حیاتیاتی کیمیا نہیں بلکہ ایک اعلیٰ تر حکمت کی نشانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریات اور فلسفوں میں دہریت اور الحاد سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ انسان سے نہ صرف ایمان چھین لیتے ہیں بلکہ اس کی امید، اخلاق اور مقصدیت بھی۔ اور جب یہ سب کچھ چھن جائے تو انسان کے پاس باقی کیا رہ جاتا ہے؟ صرف ایک خالی وجود، جو اندھی کھائی میں گرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ غیر مسلم معاشروں نے اپنے منظم مذہبی ادارے کھو دیے ہیں لیکن مذہب وہاں کسی نہ کسی صورت میں غیر منظم طور پر ثقافتی اقدار اور سماجی روایات میں اب بھی زندہ ہے۔ یہی اقدار ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن کر ان کی تہذیب کو سہارا دیتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے تعلیمی اور سماجی نظام کے ذریعے اپنی فکری و تہذیبی زندگی کو مختلف فلسفوں اور ازموں کی شکل میں آگے بڑھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے لوگ ایک مشترکہ نظریاتی ڈھانچے اور مخصوص ورلڈ ویو (Worldview) کے تحت پروان چڑھتے ہیں۔ دراصل یہ تمام رجحانات مذہبی عقیدے کے کمزور ہونے کے بعد عقلی عقائد کو اپنانے اور انہیں اجتماعی زندگی کا سہارا بنانے کی ہی ایک کوشش ہے۔
تشکیک اورایگنوسٹک ازم بھی الحاد و دہریت کی ہی ایک نرم صورت ہے جس کا اصل ہدف شبہات کو جنم دینا ہے۔ تاہم یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہر شک اور سوال منفی نہیں ہوتا۔ انسانی علم کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ تحقیق، سائنس اور فلسفے کی بنیاد ہی سوال اٹھانے پر رکھی گئی۔ شک اور سوال وہ قوت ہیں جو انسان کو جمود سے نکال کر تلاش و جستجو کی راہوں پر ڈالتے ہیں اور یہی تشکیک جب علم کا ذریعہ بنتی ہے تو روشنی کا مینار ثابت ہوتی ہے۔لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب شک اور سوال کو مستقل عقیدہ بنا لیا جائے۔ جب انسان ہر یقین اور ہر روحانی بنیاد کو رد کر کے محض شکوک کے سہارے زندگی گزارنے لگے تو یہی تشکیک ایک اندھی کھائی میں بدل جاتی ہے جو مقصدیت اور معنویت دونوں کو نگل جاتی ہے۔ اس مقام پر شک علم کا دروازہ نہیں کھولتا بلکہ یقین کے انکار کا مذہب بن جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص گرفت اور ذمہ داری سے بچنے کے لیے تشکیک کو ڈھال بناتا ہے تو اس کا رویہ اسے صداقت کی دہلیز پر تو کھڑا رکھتا ہے مگر اندر قدم رکھنے کہ ہمت نہیں بخشتا ۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان سب نظریات اور تھیوریز پر تو تحقیق کی جا سکتی ہے جو دہریت کے مقابلے میں نسبتاً نرم ہیں اور جو عقلی رویہ رکھتے ہوئے بھی کم از کم خالق یا ماورائی حقیقت کے امکان کے دروازے بند نہیں کرتے۔ لیکن دہریت اور الحاد، جو ہر مذہبی و روحانی امکان کو محض وہم قرار دیتے ہیں، انہیں فلسفیانہ سرگرمیوں میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے؟ یہ فکر انسان کو نہ صرف ایک بے مقصد کائنات میں تنہا کر دیتی ہے بلکہ اس سے ہر روحانی تسکین اور ہر اخلاقی جواز بھی چھین لیتی ہے۔ نتیجتاً انسان اپنی تخلیقی اور تہذیبی توانائی کو اندھیری بےمعنویت میں گم کر دیتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں مغربی نظریات کے اثرات اتنے تباہ کن نہیں ہوتے جتنے مسلم معاشروں میں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم معاشروں میں مذہبی اداروں کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا اور مذہب صرف ثقافتی روایت کے طور پر موجود ہے جس میں حساسیت کم پائی جاتی ہے۔ ثقافتی روایت میں یہ نظریات آہستہ آہستہ جذب ہو کر اثر ڈالتے ہیں، جس کے فوری مہلک اثرات نظر نہیں آتے۔ ان کے تعلیمی نظام میں قومی و ثقافتی ہم آہنگی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور طلبہ کو یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ فلسفوں اور تھیوریز کو پڑھیں، ان سے مادی فائدہ اٹھائیں لیکن اپنی تہذیبی اقدار سے دستبردار نہ ہوں۔
اس کے برعکس مسلم معاشروں میں صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں مغربی نظریات کی یا تو اندھی تقلید کی جاتی ہے یا پھر اندھی مخالفت۔ جابرانہ ریاستیں تہذیبی شعور اور فکری مطالبات سے آزاد ہیں اور حاکم طبقہ اپنے مفادات کے تحت کبھی کسی بھی تھیوری کے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیتا ہے اور کبھی سخت رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ تعلیم اور نصاب کے ذریعے تہذیبی شعور اُجاگر کرنے اور قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے گروہی، مسلکی، لسانی، ثقافتی اور قومیتی اختلافات کو ابھار کر جابرانہ تسلط قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نئے نظریے پر ایسا ہی غیر ضروری ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جیسے فرقہ وارانہ اور قوم پرستانہ بیانیوں کے ٹکراؤ پر۔ اور نوجوان تجسس یا ردِ عمل کے تحت ان نظریات کی طرف ایسے ہی لپکتے ہیں جیسے پرکشش نعروں پر پُرجوش سیاسی کارکن۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علمی و فکری رہنمائی سب سے زیادہ ضروری ہو جاتی ہے تاکہ نوجوان یہ سمجھ سکیں کہ یہ فلسفے اور نظریات جزوی طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے قابل تو ہیں، لیکن انہیں ایمان اور مقصدِ حیات کا متبادل بنانا خودکشی کے مترادف ہے۔
اہلِ علم اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نظریات کا متوازن تجزیہ پیش کریں۔ نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ سوشلسٹ، لبرل یا فیمنسٹ نظریات میں بعض جزوی پہلو قابلِ توجہ ہو سکتے ہیں، لیکن حقیقی معنویت، اخلاقی بنیاد اور زندگی کا مقصد صرف ایمان ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ ریاست اور سماجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ قومی پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھیں، مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے اہلِ علم کو جگہ دیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں تاکہ نوجوانوں کو ایک مضبوط فکری رہنمائی میسر ہو سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اہلِ علم اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں اور پھر بیرونِ ملک جا کر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہمارا اپنا معاشرہ ان کی قابلیت اور علم سے محروم رہ جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی پالیسیوں اور اداروں میں تبدیلی لائیں اور فکری رہنماؤں کو مرکزی کردار دیں تو معاشرہ ایک مثبت اور تعمیری سمت اختیار کر سکتا ہے۔
نجات کا راستہ یہی ہے کہ ہم اپنی اصل روحانی جڑوں کو پہچانیں اور اس یقین کو تازہ کریں کہ زندگی محض بقا کا نام نہیں بلکہ ایک اعلیٰ اور بامقصد حقیقت ہے۔ یہی ایمان انسان کو اندھی کھائی سے نکال کر روشنی، سکون اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی سرچشمہ فرد اور معاشرے دونوں کو استحکام اور وقار عطا کرتا ہے۔