Skip to content

علم و تقویٰ کا چراغ بجھ گیا

شیئر

شیئر

تحریر: راشد خان سواتی

شیخ الحدیث استاذ العلماء حضرت مولانا فخر الاسلام صاحب علم و فضل کا بحرِ بے کراں اور عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ آپ کی وفات سے ضلع مانسہرہ ایک ایسے عظیم باعمل عالم دین، اہلِ حق اور اہلِ تقویٰ شخصیت کی برکات سے محروم ہو گیا جو اپنے اسلاف کے حقیقی نمائندے اور ایک ولی کامل تھے۔

حضرت مولانا فخر الاسلامؒ کو وراثت میں جو علمِ دین نصیب ہوا، اس کو نہایت دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ آگے منتقل کیا۔ نہ صرف اپنی اولاد کو علومِ دینیہ سے بہرہ ور کیا بلکہ اہلیانِ مانسہرہ کے بچوں اور بچیوں کو بھی اپنے علم، زہد اور تقویٰ سے فیض پہنچایا۔ اپنے مدرسہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ جامعہ اشاعت الاسلام کالج دوراہا میں بھی پڑھاتے رہے۔ جمعہ کی نماز آپ اکثر راولپنڈی میں پڑھایا کرتے اور اسی مسلسل دینی خدمت نے آپ کو ہمہ وقت چاک و چوبند رکھا۔

چونکہ میرے والد گرامی کا تعلق بنوری ٹاؤن کراچی کے علمائے کرام سے رہا ہے، اس لیے انہوں نے ہمیشہ علما کے احترام اور احتیاط کی تلقین کی۔ یہی تربیت مجھے حضرت مولانا فخر الاسلامؒ کے فرزندِ ارجمند اور میرے قریبی بھائی جیسے دوست مفتی ڈاکٹر ظہور الاسلام صاحب سے تعلق کی بنیاد بنی۔ مفتی صاحب اور ان کے برادران بھی اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علومِ دینیہ کی اشاعت میں مصروف ہیں اور عجز و انکساری کا عملی نمونہ ہیں۔

اہلِ حق اور اللہ والوں کی پہچان ان کے جنازے سے ہوتی ہے۔ حضرت کے جنازے میں عوام کی ہزاروں کی تعداد میں شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی دینی خدمات اور روحانی اثرات کس قدر وسیع تھے۔ ان کے صاحبزادگان کے چہروں سے بھی یہ عیاں تھا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے ملی اس قیمتی وراثت کو نہ صرف سنبھالنے بلکہ آگے بڑھانے کے عزم پر قائم ہیں۔

حضرت مولانا فخر الاسلامؒ کی جدائی صرف ان کے صاحبزادگان یا اہلیانِ پکھل کے لیے ہی نہیں، بلکہ پورے علاقے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے۔ کیونکہ ایک عالم کی موت دراصل ایک جہاں کی موت ہے ، اور یہ خلا برسوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔

اللّٰہ تعالیٰ حضرت مولانا فخر الاسلامؒ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں