Skip to content

شعور نامہ : تعلیم کا سوال۔ قسط۔۱

شیئر

شیئر

تحریر: ڈاکٹر محمد حسین

میری کہانی اسی مٹی سے جڑی ہے جہاں سے بہنے والے دریا سے پورا پاکستان سیراب ہوتا ہے – گلگت بلتستان کی وادی کھرمنگ کے چھوٹے سے گاؤں مادھوپور میں۔

میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا جہاں تنگ دستی روزمرہ کی حقیقت تھی، اور گھر میں کئی سال تک بیک وقت والدہ، دادا اور دادی – کی بیماریاں اسے مزید بھاری بنا دیتی تھیں، ان کے علاج معالجے کا مستقل انتظام ایک بڑا چیلنج تھا۔

ابو کو خود پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن موقع نہ ملا۔ نوعمری میں تنگ آکر کراچی چلے گئے، فیکٹریوں میں محنت مزدوری کی، اور سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے نک نیم ‘چھوٹا علی’ پڑ گیا۔

انیس سو اسی کی دہائی میں، وہ پورٹر کی حیثیت سے کے ٹو کے کوہ پیماؤں کے ساتھ کام کرتے رہے،

کام کرتے رہے، لیکن پڑھنے کی حسرت دل میں گہری تھی۔ چنانچہ، انہوں نے ٹھان لی کہ اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں گے۔

مال مویشی اور درخت بیچے، اور کوہ پیمائی کے سیزن سے کمائی جمع کی۔ اس پیسے سے ایک چھوٹی سی دکان کھولی، جو ہماری زندگی کا سہارا بنی۔

علاقے میں نفرت انگیز مذہبی سیاست کی مخالفت پر پورا گاؤں مخالف ہو گیا، سماجی بائیکاٹ کیا، لیکن اچھے کاروباری معاملات کی وجہ سے دور دراز کے گاہکوں نے سہارا دیا، اس دکان کی بدولت نہ صرف تنگ دستی دور ہوئی بلکہ اب سکردو کے بجائے راولپنڈی اور لاہور سے ہول سیل پر سامان منگواتے اور مقامی مارکیٹ میں سستے نرخوں بیچتے، یوں مرحوم والد ایک کامیاب اور باعتماد کاروباری و سماجی شخصیت بن چکے تھے۔

سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے، ابو کی تعلیم کی حسرت کا پہلا دباؤ مجھ پر پڑا۔
میں سکول نہ جانے کے بہانے کرتا – کبھی لکڑی کی تختی ٹوٹنے کا، کبھی قلم دوات نہ ہونے کا، تو کبھی کتاب پھٹنے کا۔
وہ کبھی ڈانٹ سے، اور کبھی پیار سے ترغیب دیتے، سکول لے جاتے۔
دوسرے ہفتے پھر میرے وہی بہانے شروع۔

أبو کو میں نے تنگ بہت کیا، خود کو پڑھنے کا موقع نہ ملنے کی حسرت تو دوسری طرف بیٹے کے سکول نہ جانے کی ضد۔

چھٹی جماعت سے ہم نے اے بی سی سیکھی۔ سرکاری سکول میں اردو میڈیم میں میٹرک کیا، پھر مدرسے میں داخلہ لیا۔

”خطوط طول بلد اور خطوط عرض بلد، عاد اعظم، ذو اضعاف اقل، قالب، کمیت، عناصر اور اجزائے ترکیبی” اور سولہ تک کے پہاڑے بھولنے میں بہت عرصہ لگا۔

سکردو، لاہور اور اسلام آباد میں مدرسے کی تعلیم شوق سے پڑھی، اور پندرہ سال کے روایتی نصاب کو دس سال میں مکمل کیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اگلے سال کی تیاری کرکے امتحانات دے کر وقت کم کیا۔

ساتھ میں علوم قرآن کا خصوصی کورس، عربی ٹیچر کا کورس، شہادت عالمیہ، انگلش زبان کا کورس، کمپیوٹر کا کورس، بی ایڈ، ایجوکیشنل پلاننگ اور مینیجمنٹ میں ماسٹر، ایجوکیشن میں ایم فل اور پی ایچ ڈی تک پہنچا۔

پورے تعلیمی سفر میں کھیلوں سے دور رہنے کا خمیازہ کم ہمتی کی صورت میں جھیل رہا ہوں جو سبق کھیل سکھا سکتی ہے وہ کلاس روم اور کتابوں میں نہیں پایا جاتا۔

فنون لطیفہ سے دوری کے اثرات بہت بار اور بہت سے مواقع پر شدت سے محسوس کرتا ہوں۔

درسی کتابوں کے علاوہ، مختلف موضوعات پر مختلف زبانوں کی کتابیں پڑھنا شروع کیا، جو لکھنے میں نکھار لانے میں مددگار ثابت ہوا۔

پھر مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے تحت درجن سے زیادہ نصابی، تربیتی اور تحقیقی کتابیں لکھیں اور سینکڑوں مضامین لکھے درجنوں ٹی پروگراموں میں بطور ماہر تعلیم اپنے تجزیے پیش کیے۔

ملک بھر میں مدارس، سکولوں، کالجوں کے اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس کیں، نوجوانوں اور طلبہ کے لیے کیریئر گائیڈنس سیشنز، والدین کے لیے بچوں کی پرورش اور تعلیم پر سیشنز کیے۔ دنیا کے مختلف تعلیمی ماڈلز کا مطالعہ کیا۔

امریکہ گیا تو وہاں کے تعلیمی نظام کو قریب سے دیکھا، وں تقریبا چھے سالہ قیام ایک ہائی سکول میں پڑھایا، ڈریو یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھایا۔

مختلف ممالک میں سو سے زائد درسگاہوں کے دورے کیے، جہاں لیکچرز دیے یا تربیتی سیشنز کیے۔

ماہرین، محققین اور دانشوروں سے مکالمے کیے-
ان سب تجربات، مشاہدات، مکالمات اور مطالعات کے نتیجے میں، میں نے تعلیمی مسائل کے تجزیے اور حل کے امکانات پر گہری سوچ بچار کی۔

یہ سب مجھے یہاں لایا ہے – اس بلاگ سیریز تک، جہاں ہم پاکستان کی تعلیم کے مسائل کو کھل کر دیکھیں گے۔

تصور کریں، ایک چھوٹے سے دیہات میں ایک لڑکی ہے، جس کی آنکھوں میں خواب ہیں – ڈاکٹر بننے کے، دنیا تبدیل کرنے کے۔ وہ سکول جانا چاہتی ہے، لیکن راستے میں رکاوٹیں ہیں:
دور کا سکول،
گھر کے کام،
اور وہ بنیادی سہولیات جو شاید موجود ہی نہ ہوں۔
یہ کہانی صرف ایک لڑکی کی نہیں، بلکہ کروڑوں پاکستانی بچوں کی ہے۔
یونیسیف کے مطابق سکول جانے کی عمر کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
ہم سب نے ایسے بچوں کو دیکھا ہے، جو تعلیم کی روشنی سے محروم رہ جاتے ہیں، اور یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے۔

جو بچے سکولوں کا رخ کر بھی لیتے ہیں، انہیں ملنے والی تعلیم کا معیار کیا ہے؟ یہ سوال الگ سے غور طلب ہے اور ہماری توجہ کا مستحق۔

آج ہم ایک نئی سیریز شروع کر رہے ہیں، جہاں ہم پاکستان کی تعلیم کے مسائل کو کھل کر دیکھیں گے، ان کی بنیادی وجوہات کو سامنے لائیں گے، اور عملی حل کے راستے تلاش کریں گے۔

یہ سیریز آپ کے لیے ہے – والدین، طلبہ، اساتذہ، اور ہر وہ شخص جو ملک کی تعلیمی بہتری کا خواب دیکھتا ہے۔

ہم ہمدردی سے بات کریں گے، کیونکہ یہ مسائل محض اعدادوشمار نہیں، بلکہ انسانی زندگیاں اور خواب ہیں جو ان سے جڑے ہوئے ہیں۔

اس سیریز میں، ہم روزانہ ایک مسئلے پر غور کریں گے۔

ہم پاکستان کی تعلیم کو بین الاقوامی معیارات سے موازنہ کریں گے، بہترین پریکٹسز کا جائزہ لیں گے،
پالیسیوں کا تجزیہ کریں گے، اور مستقبل کے امکانات تلاش کریں گے۔

یہ ایک سفر ہے، جہاں ہم مل کر سوچیں گے: کیا تعلیم صرف امتحان پاس کرنے اور ڈگریاں حاصل کرنے کا نام ہے، یا زندگی بدلنے کا حقیقی ذریعہ؟
اور اگر ہمارے بچے پیچھے رہ گئے، تو ہمارا قومی مستقبل کیا ہو گا؟

آپ کو کیا لگتا ہے کہ سب سے پہلے کس مسئلے پر بات کی جائے؟
کمنٹس میں بتائیں۔
اگلے بلاگ میں ہم ایک مخصوص مسئلے پر گہرائی سے غور کریں گے۔

امید ہے، یہ سلسلہ آپ کو پسند آئے گا!

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں