تحریر: وحید مراد
انسان کی فطرت میں ایک ایسی بے چینی اور طلب رکھی گئی ہے جو محض روٹی، کپڑے، مکان یا وقتی لذتوں سے پوری نہیں ہوتی۔ یہ پیاس دراصل معنویت کی ہے جسے صرف روحانی تعلق ہی سیراب کر سکتا ہے۔ جب کوئی ذہن مذہب سے بیزار ہوتا ہے تو بظاہر آزادی اور خودمختاری کا جشن مناتا ہے مگر درونِ خانہ ایک ایسی خلش میں گرفتار ہو جاتا ہے جو سکون کو مسلسل چاٹتی رہتی ہے۔ وہ وجودی خلا جسے مذہب پُر کرنے کی طاقت رکھتا ہے، جب خالی رہ جائے تو انسان آرٹ، موسیقی، مشاعروں اور فکری محفلوں کے ذریعے اس کو بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ وقتی طور پر دل کو بہلاتا ضرور ہے لیکن جیسے صحرا میں سراب پیاس نہیں بجھا سکتا ویسے ہی یہ سرگرمیاں اس وجودی پیاس کا علاج نہیں کرتیں۔ آخرکار یہی اذہان اس کرب انگیز کیفیت کو بھلانے کے لیے طنز اور انکار کا سہارا لیتے ہیں۔ مذہبی اقدار پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یوں اپنی بےچینی کو دبا سکیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل شہوت کی مانند ہے، لمحاتی تسکین کے بعد مزید شدت سے لوٹ آتا ہے۔ اسی لیے وہ ہر روز آنکھ کھلتے ہی مذہب پر حملے کرنا ایک فکری مشق سمجھ لیتے ہیں اور رات تک اسی میں الجھے رہتے ہیں ۔
یہ اذہان عموماً جو اعتراضات اٹھاتے ہیں وہ سطحی اور کمزور ہوتے ہیں مگر چونکہ عام افراد گہرائی میں جا کر تجزیہ نہیں کرتے اس لیے وہ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ان کے شبہات کا جواب دینا ضروری ہے۔ ان کے مقدمات بظاہر مربوط اور عقلی استدلال پر قائم دکھائی دیتے ہیں لیکن ذرا سا پردہ ہٹایا جائے تو ان کی بنیاد ادھورے فہم، تاریخی مغالطوں اور ناقص مقدمات پر کھڑی نظر آتی ہے۔
مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ عقیدہ ماننے پر مبنی ہے اور جاننےپر نہیں اس لیے یہ علمی معیار پر پرکھنے کے لائق ہی نہیں۔ یہ مغالطہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب علم کو محض لیبارٹری کے تجربے تک محدود کر دیا جائے اور ہر شعبہ علم کو ایک ہی منہج کی لاٹھی سے ہانکا جائے۔ ایمان اندھی تقلید کا نام نہیں بلکہ ایک تدریجی سفر ہے۔ "علم الیقین” سے "عین الیقین” اور پھر "حق الیقین” تک۔ اس سفر میں عقل، وحی، روایت، وجدان، ضمیر، رقت قلبی اور انسانی احساسات و تجربات سب شامل ہیں۔ اگر ایمان محض مان لینے کا نام ہوتا تو بار بار تدبر، تفکر اور عقل کے استعمال کی تلقین نہ کی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان صرف سچ کو قبول کرنے کا نام ہے اور سچ ہمیشہ دلائل، تجربے اور روحانی بصیرت سے تقویت پاتا ہے۔مغربی فلسفہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ علم ایسا عقیدہ ہے جو سچ بھی ہو اور استدلال پر بھی مبنی ہو لیکن مقامی مذہب بیزار طبقہ فلسفے میں سے صرف اپنے مطلب کی چیزوں کا انتخاب کرتا ہے اسے مجموعی طورپر کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
اسی طرح جب مذہب بیزار اذہان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان انسان کو غیر سائنسی بنا دیتا ہے تو وہ تاریخ کو فراموش کر دیتے ہیں کہ سائنس، فلسفہ، ریاضی اور طب کی ترقی مذاہب کے دائرے میں ہی ہوئی، اس کے مقابل نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب بیزار اذہان ایمان کو محدود سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ کھڑکی ہے جو کائنات کو بامعنی بنا دیتی ہے۔ ایمان کے بغیر علم ایک ایسا کھلا ہوا دروازہ ہے جس کے پیچھے اندھیرا ہو اور ایمان کے ساتھ علم ایک راستہ ہے جو روشنی میں منزل تک لے جاتا ہے۔
یہ اعتراض کہ مذہبی ذہن دہریت کے مقابلے میں تمام مذاہب کا ایک طرح کا "اتحاد” بنا لیتا ہے، دراصل اسلام کی پوزیشن کو سمجھے بغیر کیا جاتا ہے۔ اسلام نے کبھی بھی سب مذاہب کو ایک جیسا قرار نہیں دیا۔ بار بار اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مشرکانہ روایت اور توحیدی روایت میں بنیادی فرق ہے۔ اسی لیے یہود و نصاریٰ کو "اہلِ کتاب” کہا گیا اور انہیں دہریت یا الحاد کے برابر نہیں رکھا گیا۔ اس فرق کی بنیاد یہ ہے کہ دہریت کُلّی طور پر خالق کی نفی کرتی ہے جبکہ اہلِ کتاب اگرچہ اپنی تاریخ اور عقائد میں تحریفات کا شکار ہوئے لیکن کم از کم ایک خالق، وحی اور کسی نہ کسی درجے میں نبوت کے قائل رہے۔
یہ بات محض عقیدے کا اختلاف نہیں بلکہ ایک منطقی درجہ بندی ہے۔ حقیقت کو ہمیشہ مراتب اور درجات میں دیکھا جاتا ہے۔ کوئی انسان اگر پوری طرح روشنی سے محروم ہو تو وہ مکمل تاریکی میں ہے اور اگر روشنی کمزور ہو تو وہ دھندلا سہی مگر روشنی میں ہے۔ اسی طرح دہریت اور توحید پر مبنی مذاہب کے درمیان فرق دراصل "روشنی کے درجات” کا فرق ہے۔ دہریت حقیقت کا انکار ہے جبکہ اہلِ کتاب کم از کم اس حقیقت کا کچھ حصہ مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اہلِ کتاب کے ساتھ معاشرتی تعلقات، ازدواجی رشتے اور سماجی معاملات میں وہ گنجائش رکھی جو دہریوں یا مشرکین کے ساتھ نہیں رکھی۔ یہ عملی اور فکری دونوں سطحوں پر ایک گہری حکمتِ عملی ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اسلام کا یہ رویہ کوئی وقتی سیاسی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایک مستقل اصول ہے۔ کیونکہ اگر ہر غیر مسلم کو یکساں درجہ دیا جاتا تو پھر ان میں فرق کرنے کا کوئی معیار نہ رہتا۔ اس فرق کو واضح کر کے یہ بتایا گیا کہ ایک طرف انکارِ خدا ہے اور دوسری طرف اس کے وجود اور وحدانیت کا کسی نہ کسی درجے میں اعتراف۔ یہ تضاد نہیں بلکہ حقیقت کے مراتب کی پہچان ہے۔یہ محض دفاع یااتحاد کی کوشش نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ترجیح ہے۔ عقلی بنیاد پر بھی یہ کہنا درست ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ اور فکری رشتہ زیادہ بامعنی ہو سکتا ہے بنسبت اس کے جو سرے سے کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔
ان مقامی مذہب بیزار اذہان کا ایک اہم مقدمہ یہ ہے کہ مذہب اخلاقیات کو اپنی دین قرار دیتا ہے مگر سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آخر کس مذہب کی اخلاقیات؟ یہ سوال بظاہر بڑے وزن والا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں سطحی ہے۔ مذہب کا دعویٰ یہ نہیں کہ ہر مذہب نے ایک جیسی اخلاقیات دیں، بلکہ یہ کہ ایک خالق ہے جس نے مختلف زمانوں اور قوموں میں انبیاء کے ذریعے انسان کو اخلاقی ہدایت عطا کی۔ اصل ماخذ ایک ہی تھا مگر وقت کے ساتھ یہ تعلیمات انسانی کمزوریوں، سیاسی مفادات اور ثقافتی اثرات کے تحت بگڑ گئیں یا مسخ ہو گئیں۔ اس لیے تضاد مذہب میں نہیں بلکہ ان بگڑی ہوئی شکلوں میں ہے جو انسانی ہاتھوں کی پیداوار ہیں۔
اگر بائبل یا دیگر کتب میں بعض قصے اخلاقی اعتبار سے ناقابلِ قبول لگتے ہیں تو یہ خود عیسائی اور یہودی محققین بھی مانتے ہیں کہ ان متون پر صدیوں کے دوران ایڈیٹنگ، تبدیلی اور مقامی اثرات مرتب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل کے متعدد نسخے اور متضاد روایات آج بھی موجود ہیں اور انہی کی بنیاد پر مغرب میں اس متن پر باقاعدہ علمی و تنقیدی شعبے وجود میں آئے۔ اس کا ذمہ مذہب پر ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بگڑی ہوئی دوائی کو دیکھ کر پورے علمِ طب کو جھٹلانا۔
اسلام اس تناظر میں پچھلے انبیاء کی اصل تعلیمات کی تصدیق کرنے والا اور ساتھ ہی ان پر تنقید و نگرانی کرنے والا مذہب ہے۔ گویا قرآن ایک طرف پچھلی وحیوں کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے اور دوسری طرف ان کے اندر آنے والی تحریفات کی نشاندہی کر کے درستگی کرتا ہے۔ اس دعوے کی عقلی بنیاد بھی ہے کیونکہ اگر خدا نے انسان کو بار بار ہدایت دی تو اس کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی حتمی کتاب کے ذریعے ایک محفوظ پیغام بھیجے تاکہ قیامت تک کے لیے سند قائم ہو جائے۔
یہ اذہان مختلف مذاہب کے اندر پائی جانے والے باہمی اختلافات کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب بذاتِ خود تضادات کا مجموعہ ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تضاد مذہب میں نہیں بلکہ "انسانی تحریف اور جزوی بگاڑ” میں ہے۔ اگر ایک ہی سورج مختلف آئینوں میں مختلف رنگ دکھائے تو اس کا قصور سورج کا نہیں بلکہ آئینوں کی شکستگی اور غبار کا ہوتا ہے۔ اسلام کا موقف یہی ہے کہ اصل روشنی ایک ہے، باقی اختلافات انسانی کمزوری اور تاریخی تغیرات کی دین ہیں۔
ان اذہان کا دعویٰ ہے کہ الہامی مذاہب کے متون کے کوئی آثار قدیمہ نہیں ملتے جبکہ گلگامش اور حمورابی کے قوانین مل گئے ہیں۔ یہ بات بھی ایک مغالطہ ہے۔ اول تو یہ کہ گلگامش اور حمورابی کی دستاویزات کا ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ الہامی مذاہب جھوٹے ہیں کیونکہ آثار قدیمہ ہمیشہ حالات کے مطابق محفوظ یا ضائع ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ اسلامی روایت میں قرآن اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور اس کی قدیم ترین نسخے آج بھی دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ یہ دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں تسلسل کے ساتھ منتقل ہوئی۔ عیسائیت اور یہودیت کے قدیم متون کا محفوظ نہ رہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وحی سرے سے موجود نہ تھی بلکہ یہ کہ انہوں نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں نبھائی۔
یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اخلاقیات دراصل انسانی ارتقاء اور معاشرتی ضرورت کا نتیجہ ہے گویا یہ کسی مابعد الطبیعی بنیاد کی بجائے صرف سماجی معاہدے سے پیدا ہوئی۔ لیکن یہ دعویٰ دراصل فلسفہ اخلاق کی ایک محدود جہت کو مطلق قرار دینا ہے۔ اگر اخلاقیات محض معاشرتی ضرورت سے جنم لیتی ہے تو پھر ہر معاشرہ اپنی مخصوص ضرورت کے مطابق ظلم، جبر، غلامی اور قتل کو بھی اخلاقی بنا سکتا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی معاشرے گزرے ہیں جہاں انسانی جانوں کی قربانی کو جائز سمجھا گیا۔ اگر ضرورت ہی معیارِ اخلاق ہو تو پھر کسی ظلم کو روکنے کے لیے کوئی ابدی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ مذہب ہی وہ تناظر فراہم کرتا ہے جو اخلاقیات کو محض وقتی ضرورت نہیں بلکہ ایک مطلق اصول سے جوڑتا ہے اور انسان کو اس کے اندرونی ضمیر (conscience) کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔
اسی ضمن میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ جدید سیکولر معاشرے اپنے قوانین عقل و علم کی بنیاد پر مرتب کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قوانین بھی مذہبی روایتوں کے اثر سے بنے ہیں۔ مغربی قانونی و سیاسی فکر میں تکریم انسانیت، فطری قوانین، حقوق انسانی جیسے تصورات براہِ راست یہودی وعیسائی روایت سے ماخوذ ہیں۔ خود اقوامِ متحدہ کا چارٹر انہی مذہبی اثرات کا ایک سیکولر اظہار ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ مذہب نے اخلاقی نظام نہیں دیا بلکہ سب کچھ انسانی عقل نے تراشا، تاریخ کی صریح ناانصافی ہے۔
مزید تضاد یہ ہے کہ ایک طرف مغربی معاشروں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ وہاں مذہبی اخلاقیات سے ماخوذ اقدار رائج ہیں اور دوسری طرف اس بات پر خوشی منائی جاتی ہے کہ انہی معاشروں میں شراب، زنا اور خاندانی نظام کی شکست و ریخت عام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے مذہب کی اخلاقیات کو بنیاد تو بنایا لیکن پھر ان کی سیکولر تعبیر اختیار کر لی۔ جس کے نتیجے میں خاندانی نظام کمزور ہوا، انفرادیت پرستی (individualism) نے رشتوں کو توڑا اور جنسی آزادی نے سماجی ڈھانچے کو متزلزل کر دیا۔ یہ نتائج مذہب کے نہیں بلکہ مذہب بیزار فکر کے ثمرات ہیں۔
یہاں فرق کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے کہ دہریت انسان کو محض ایک مادی حیوان قرار دیتی ہے اور زندگی کو محض ایک حادثہ۔ اس تصور میں نہ کوئی مطلق معیارِ اخلاق ہے اور نہ کوئی بلند مقصدِ حیات۔ اس کے برعکس مذہب انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے، اس کے وجود کو مقصد دیتا ہے اور اخلاقیات کو ایک الٰہی اور ناقابلِ تغیر بنیاد سے جوڑتا ہے۔ یہی وہ امتیاز ہے جو مذہب کے مقدمے کو دہریت کے مقابلے میں مضبوط، دیرپا اور زندگی آفرین بناتا ہے۔
مذہب بیزار طبقے کے نکات زیادہ تر مذہب کے سطحی، مسخ شدہ یا جزوی پہلوؤں پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں دہریت کے مقابلے میں پیش کر کے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا دہریت انسان کو وہ معنویت، اخلاقی جواز اور وجودی اطمینان دے سکتی ہے جو مذہب دیتا ہے؟ تاریخ اور انسانی تجربہ یہی جواب دیتا ہے کہ دہریت اس امتحان میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ مذہب ہی وہ قوت ہے جو انسان کو مادی حیوانیت سے بلند کر کے ایک بامقصد، باوقار اور اخلاقی وجود عطا کرتا ہے۔