Skip to content

اکتوبر انقلاب

شیئر

شیئر

تحریر: عادل سیماب


اکتوبر 1917 کی ایک رات پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر برف گر رہی تھی۔ ایوان، جو ایک فیکٹری مزدور تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ "سرخ گارڈ” میں شامل تھا۔ وہ ونٹر پیلس کے دروازے پر کھڑا تھا جہاں عبوری حکومت کے وزراء چھپے بیٹھے تھے۔ اچانک خبر آئی: "محل پر قبضہ ہو گیا!” ایوان نے اپنی بندوق فضا میں لہرا کر نعرہ لگایا، "اب طاقت مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں ہے!”

اسی وقت سینکڑوں میل دور ایک دیہات میں نیکلائی، ایک کسان، اپنی بیوی کے ساتھ کھیتوں کے قریب بیٹھا تھا۔ اس نے سنا کہ پیٹروگراڈ میں نئی حکومت نے "زمین کسانوں کی ہے” کا اعلان کیا ہے۔ وہ چونکا، پھر زمین پر جھک کر مٹی کو چوم لیا۔ صدیوں کے خواب اس کے لیے حقیقت بن گئے تھے۔

جلد ہی پیٹروگراڈ میں لینن نمودار ہوا۔ وہ سوویت کے ہال میں کھڑا تھا اور مجمعے کو دیکھ کر بولا:
"ہم پرانے زمانے کو دفن کر چکے ہیں۔ اب امن، زمین اور روٹی ہر روسی کا حق ہے۔”
ایوان نے یہ تقریر اپنی آنکھوں سے دیکھی اور دل ہی دل میں کہا: "یہ آدمی ہمارے دل کی آواز ہے۔”

لیکن امن کا سوال آسان نہ تھا۔ جرمنی ابھی بھی جنگ میں تھا اور روس کمزور۔ یہاں لیون ٹراٹسکی کا کردار نمایاں ہوا۔ ٹراٹسکی، جو سرخ فوج کا بانی تھا، ہر روز محاذوں پر جاتا، سپاہیوں سے بات کرتا اور انہیں حوصلہ دیتا۔ ایک دن ایوان، جو اب سرخ فوج میں شامل ہو چکا تھا، ٹراٹسکی کی تقریر سن رہا تھا۔ ٹراٹسکی نے گھوڑے پر سوار ہو کر کہا:
"ساتھیو! اگر ہم ہار گئے تو زمین پھر جاگیرداروں کے پاس چلی جائے گی۔ اگر ہم ڈٹے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں یاد کریں گی!”
ایوان نے اپنی بندوق مضبوطی سے پکڑی اور عزم کیا کہ اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں۔

دوسری طرف نیکلائی اپنے دیہات میں نئے مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔ خانہ جنگی کے دنوں میں سرخ فوج کو اناج چاہیے تھا، اور حکومت نے کسانوں سے زبردستی اناج لینا شروع کیا۔ نیکلائی کو دکھ تھا کہ اس کی محنت کی فصل یوں اٹھالی جاتی ہے، مگر وہ سوچتا: "اگر انقلاب بچ گیا تو یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔”

انہی دنوں ایک اور شخصیت سامنے آئی—الیکزینڈرا کولونتائی۔ وہ سوویت حکومت میں شامل ہونے والی پہلی عورتوں میں سے تھی اور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ اس نے کہا:
"انقلاب تب مکمل ہوگا جب عورت بھی مرد کے برابر ہوگی، جب وہ تعلیم حاصل کرے گی، جب وہ اپنی زندگی پر خود فیصلہ کرے گی۔”
ایوان کی بہن ماشا اس کی تقریروں میں شامل ہوتی اور پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ عورت بھی آزاد ہو سکتی ہے۔

خانگی جنگ سخت تھی۔ غیر ملکی فوجیں روس میں اتریں، سفید فوج نے بغاوتیں کیں۔ ایوان نے کئی ساتھیوں کو کھو دیا۔ نیکلائی کے گاؤں میں قحط آیا، بچے بھوک سے بلبلانے لگے۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود سرخ فوج نے آخرکار جیت حاصل کی۔

1921 میں جب خانہ جنگی ختم ہوئی تو روس تھکن اور بربادی کا شکار تھا۔ لینن نے نئی پالیسی کا اعلان کیا جسے "نیو اکنامک پالیسی” کہا گیا۔ اس کے تحت نیکلائی کو اپنی فصل کا کچھ حصہ بازار میں بیچنے کی آزادی ملی۔ وہ پہلی بار اناج بیچ کر اپنی بیوی کے لیے گرم کپڑا لایا۔ ایوان کی فیکٹری میں بھی حالات کچھ بہتر ہونے لگے۔

ایوان نے کہا: "ہم نے بہت کچھ جھیلا ہے، لیکن اب ہمارے پاس ایک نیا مستقبل ہے۔”
نیکلائی نے جواب دیا: "یہ مستقبل ہمارے خون، ہماری قربانی اور ہمارے خوابوں سے بنا ہے۔”

اور کہیں دور، لینن بیمار ہو کر آرام کر رہا تھا۔ ٹراٹسکی فوجی رپورٹیں لکھ رہا تھا۔ کولونتائی عورتوں کو پڑھنے لکھنے کے لیے جمع کر رہی تھی۔ لیکن روس کے ہر مزدور اور کسان کے دل میں ایک ہی احساس تھا: یہ ملک اب ان کا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں