Skip to content

پیرس کمیون سے بالشویک انقلاب تک

شیئر

شیئر

عادل سیماب

1871 کا سال تھا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں لوگ بھوک، جنگ اور غربت سے تنگ آچکے تھے۔ حکومت کمزور ہو چکی تھی اور عوام نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی دنیا بدلیں گے۔ یوں پیرس کی سڑکوں پر مزدور، کاریگر اور عام شہری اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک نئی حکومت بنا ڈالی۔ اس حکومت کو پیرس کمیون کہا گیا۔

کمیون کا مطلب ہے لوگوں کی اپنی مشترکہ حکومت۔ یہاں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ بڑے بڑے جرنیل۔ فوج کے بجائے عوامی ملیشیا بنی جس میں ہر عام شہری شامل ہو سکتا تھا۔ حکومتی نمائندے بھی عام مزدوروں کی طرح کم تنخواہ لیتے اور اگر لوگ چاہیں تو فوراً انہیں ہٹا سکتے تھے۔ گویا یہ حکومت اوپر سے مسلط نہیں تھی بلکہ نیچے سے، عوام کی مرضی سے چل رہی تھی۔ اگرچہ یہ تجربہ صرف دو مہینے اور کچھ دن ہی رہا، لیکن اس نے ایک نئی دنیا کی جھلک دکھا دی۔

بعد ازاں کارل مارکس، جو بیسویں صدی کے سب سے بڑے سوشلسٹ مفکر تھے، نے کہا کہ یہ کمیون ثابت کرتی ہے کہ مزدور طبقہ (یعنی وہ لوگ جو محنت کر کے روزی کماتے ہیں) کے مسائل محض پرانی حکومت پر قبضہ کرنے سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ اسے توڑ کر اپنی نئی حکومت بنانی پڑے گی۔ انہوں نے اس کو "پرولتاریہ کی آمریت” کہا۔ یہ اصطلاح بڑی پیچیدہ لگتی ہے لیکن مطلب سیدھا سا ہے: مزدوروں کی اپنی حکومت، جو امیروں اور بادشاہوں کے بجائے عام لوگوں کے مفاد میں فیصلے کرے۔

اب ذرا یورپ کا نقشہ دیکھیں۔ پیرس کمیون کے بعد کے برسوں میں یورپ تیزی سے بدل رہا تھا۔ کارخانے بڑھ رہے تھے، نئی مشینیں ایجاد ہو رہی تھیں، لیکن ان سب کا فائدہ صرف بڑے سرمایہ داروں کو ہو رہا تھا۔ مزدور بارہ بارہ گھنٹے مشقت کرتے مگر تنخواہ اتنی کم کہ گھر کا چولہا مشکل سے جلتا۔ دوسری طرف یورپی طاقتیں دنیا بھر میں نوآبادیات (یعنی دوسرے ملکوں پر قبضے) کے لیے لڑ رہی تھیں۔ یہ سب بیرونی لڑائیاں دراصل اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کی حکمتِ عملی بھی تھیں۔

مزدور تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔ سوشلسٹ پارٹیاں اور یونینیں وجود میں آئیں۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ آہستہ آہستہ اصلاحات سے حالات بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن کچھ دوسرے یہ مانتے تھے کہ انقلاب کے بغیر کچھ نہیں بدلے گا۔ یہ بحث یورپ بھر میں چلتی رہی۔

اسی دوران مشرق کی طرف ایک بڑی اور پسماندہ سلطنت کھڑی تھی: روس۔ وہاں ایک بادشاہ (زار) کی مطلق العنان حکومت تھی، کسان بھاری ٹیکسوں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر تھے، اور مزدور طبقہ چھوٹا مگر منظم اور پرجوش تھا۔ یہیں لینن نام کا ایک انقلابی رہنما سامنے آیا۔ لینن نے مارکس کے خیالات کو روسی حالات کے مطابق ڈھالا۔

مارکس کا کہنا تھا کہ انقلاب زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں ہوگا، جہاں مزدور طبقہ زیادہ طاقتور ہو۔ لیکن لینن نے کہا کہ سرمایہ داری کا سب سے کمزور حصہ روس جیسا ملک ہے، جہاں عوام کی اکثریت ظلم اور جنگ سے تنگ آچکی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ انقلاب خود بخود نہیں آتا، اس کے لیے ایک مضبوط اور منظم جماعت چاہیے جو عوام کی رہنمائی کرے۔ اسی لیے اس نے بالشویک پارٹی کو ایک "پیش رو جماعت” بنایا، یعنی ایسی پارٹی جو سب سے آگے ہو اور باقی عوام کو صحیح سمت دکھائے۔

پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو روس کی زار شاہی حکومت مزید کمزور ہوگئی۔ لاکھوں فوجی مارے گئے، لوگ بھوک سے بلبلانے لگے۔ 1917 میں عوام نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا، لیکن نئی حکومت نے بھی جنگ ختم نہ کی اور کسانوں کو زمین نہ دی۔ ایسے میں لینن اور بالشویک پارٹی نے نعرہ لگایا: "روٹی، امن اور زمین”۔ یہی نعرہ لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ اکتوبر 1917 میں بالشویکوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور دنیا کی پہلی کامیاب مزدور ریاست قائم کر دی۔

یوں پیرس کمیون کی چھوٹی سی جھلک روس میں ایک بڑے انقلاب کی شکل اختیار کر گئی۔ مارکس کے نظریات اور لینن کی حکمت عملی نے مل کر یہ دکھایا کہ عام لوگ اگر متحد ہوں تو دنیا کا سب سے طاقتور نظام بھی بدل سکتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں