عمرخان جوزوی
شہرکے جاگیرداروں کانہیں پتہ لیکن گاؤں کے غریب کسان اورزمیندارجب تک گندم،مکئی اورچاول سمیت زمین میں ہونے والی دیگرفصلوں سے زکوٰۃ،صدقات اورخیرات نہ نکالتے تب تک وہ حشروالی میدان نما کھیت سے فصل نہیں اٹھاتے تھے۔ہمیں اچھی طرح یادہے نہ صرف ہمارے آبائی گاؤں جوز،ڈھیری بلکہ آس پاس کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں میں بھی جب لوگ مکئی،گندم یاچاول کی فصل کاٹ اورصاف کرکے ایک جگہ جمع کرتے توپھراٹھانے اورگھرلے جانے سے پہلے وہیں پرگاؤں کے امام،مستری اورنئی کاحصہ بھی نکال کراپناکام اورفرض پوراکردیتے تھے۔ایساکوئی کسان اورزمیندارنہیں ہوتا تھاجس کی فصل چاہے وہ گندم کی ہو،مکئی یاپھرچاول کی اس میں زکوٰۃ،صدقات اورخیرات کے ساتھ گاؤں کے امام،مستری اورنئی کاحصہ نہ ہو۔غریب سے غریب کسان اورزمینداربھی زکوٰۃ،صدقات اورخیرات نکالے بغیردانے گھرنہیں لیکرجاتے تھے۔اللہ سے ڈروخوف اوراپنوں وغریبوں سے محبت کانتیجہ تھاکہ کوئی کسان اورزمینداربدحال اورپریشان نہیں تھا۔جب تک کسانوں اورزمینداروں کوخدا،اقرباء اورغریب یادرہے تب تک یہ خوشحال رہے لیکن جب یہ زکوٰۃ اورخیرات بھول گئے توان کی زمینوں اورفصلوں سے برکت کیا۔؟برکت کے سائے بھی اٹھ گئے۔آج وہی زمینیں،گندم،مکئی اورچاول کی وہی فصلیں ہیں لیکن برکت اورخوشحالی کانام ونشان نہیں۔گندم،مکئی اورچاول کے وہ دانے جوکسانوں اورزمینداروں کے علاوہ کئی اورلوگوں اورخاندانوں کیلئے کافی ہوجاتے تھے وہی دانے اب کسانوں اورزمینداروں کے اپنے بچوں اور خاندان کے لئے پورے نہیں ہورہے۔آج کھیتوں میں پہلے سے بڑھ کر چاول،مکئی وگندم کی فصل اورسبزیاں کاشت کرنے کے باوجودکسان اورزمینداررورہے ہیں۔بڑے بھائیوں جیسے ہمارے ایک دوست ہیں۔ ڈاکٹرخرم جوایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آبادکے اس وقت ڈی ایم ایس ہیں جن سے ہمارابھائیوں جیساپیاراورمحبت والاتعلق ہے۔ وہ اکثرکہاکرتے ہیں کہ جولوگ زکوٰۃ،صدقات اورخیرات کی مدمیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں پھرکھڑی فصلوں کی تباہی کے ساتھ کورٹ کچہریوں،تھانوں اورہسپتالوں میں ایک کی جگہ دونہیں بلکہ تین تین اورچارچارلگانے وخرچ کرنے پڑتے ہیں۔اپنے آبائی ضلع بٹگرام میں طوفانی بارش اورژالہ باری سے مکئی اورچاول کی کھڑی تیار فصلوں کوتباہ ہوتے دیکھ کرڈاکٹرخرم کی باتیں بارباریادآنے لگتی ہیں۔امسال طوفانی بارش،سیلاب اورژالہ باری سے جس طرح لوگوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اس میں عقل والوں کے لئے ایک نہیں کئی بڑی نشانیاں ہیں۔جب تک لوگ اپنے مال اورفصلوں سے غرباء اوراقرباکوزکوٰۃ،صدقات اورخیرات دیاکرتے تھے تب تک ان کے مال اورفصلوں کوسیلاب،بارش،ژالہ باری،آندھی اورطوفان سے کچھ نہیں ہوتاتھا۔جب سے ہم نے خداکاخوف دل سے نکال کراپنے مال اورفصلوں سے زکوٰۃ،صدقات اورخیرات نکالناودیناچھوڑدیاہے تب سے سیلاب،بارش اورطوفان ہم اورہمارے مال وفصلوں پرایسے طاقتورہوگئے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔کھیتوں میں مکئی اورچاول کی کھڑی پکی فصلوں کوتباہ ہوتے دیکھ کراپنی حرص،لالچ اورکم عقلی پرافسوس ہوتاہے۔نادان سیلاب،طوفان اوربارش کواللہ کاعذاب کہتے ہیں لیکن یہ حقیقت میں ہمارے ہاتھوں کی وہ کمائی ہے جوہم برسوں سے جانے وانجانے میں اپنے ان گنہگاروں ہاتھوں سے باربارکمارہے ہیں۔جب سے ہم نے اپنے دلوں سے اللہ کاڈروخوف نکال کراللہ کی غریب مخلوق کوبھلادیاہے تب سے سیلاب،بارش،آندھی وطوفان کوہم سے بھی کوئی ڈراورخوف نہیں رہاہے۔پہلے بارش اورطوفان ہمارے گھروں اورکھیتوں کودیکھ کرراستہ بدل دیتے تھے لیکن اب وہی بارش ہم پراس طرح قہربن کربرسنے لگتی ہے کہ اکثراوقات خوف آنے لگتاہے۔آزمائش پرآزمائش اورطوفان کے بعدایک نیاطوفان،لگتاہے ہمارارب کہیں ہم سے بہت ناراض ہے۔رب راضی ہوتوموسم،بارش،طوفان اورسیلاب کی کیامجال کہ یہ کسی کی طرف مڑکربھی دیکھیں۔موسمیاتی تبدیلی اپنی جگہ لیکن ہمیں اپنی تبدیلیوں پربھی ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ غورکرناہوگا۔کسان ہے یازمیندار،جاگیردارہے یاکوئی سرمایہ دارہرشخص اورفردکواپنے گریبان میں جھانک کرصرف ایک باراپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرناچاہئیے کہ کیاہم تبدیل نہیں ہوئے۔؟ہمار ے آباؤاجداداوربزرگ کیاکرتے تھے اوراب ہم کیاکرنے لگے ہیں۔ کیاہمارے بزرگ اوربڑے انہی کھیتوں سے گندم،مکئی،چاول،سبزیوں اورفروٹ میں غریبوں اوررشتہ داروں کوحصہ نہیں دیتے تھے۔؟ہمارے بزرگ اگرمعمولی فصل میں یہ حصے نکال سکتے تھے توپھرہم کیوں نہیں نکال سکتے۔؟مال وزرپہلے سے کوئی کم نہیں،پہلے جن لوگوں کے پاس کچھ نہیں تھاآج ان کے پاس بھی سب کچھ ہے،بات زمین میں فصل نہ ہونے کی بھی نہیں،پہلے توبہت ساری زمینیں بنجرتھیں اب وہ بنجرزمینیں بھی فصل کاشت کرنے لگی ہیں۔مسئلہ صرف دلوں کاہے۔دنیاوسیع ہوگئی ہے مگردل ہمارے سکڑگئے ہیں۔ایک دوسرے کے لئے ادب،احترام اوراحساس کاجورشتہ اورجذبہ پہلے دلوں میں ہوتاتھاآج وہ نہیں۔سچ یہ ہے کہ ہم دنیاکی مستی میں اس قدرظالم اوراندھے ہوگئے ہیں کہ ہم نے دوسروں پررحم کرناہی چھوڑدیاہے اوریہ قانون فطرت ہے کہ جودوسروں پررحم نہیں کرتااللہ پھراس پربھی رحم نہیں کرتا۔چیخ وپکار،رونادھوناہرجگہ لگاہواہے۔رب سے گلے شکوے ہم سب کررہے ہیں لیکن رب کوراضی کرنے والی بات کوئی نہیں کرتا۔کراچی سے گلگت اورکشمیرسے باجوڑتک تباہی پرتباہی کے یہ مناظربتارہے ہیں کہ ہمارارب کہیں ہم سے بہت ناراض ہے۔اس لئے ہم سب کوسچے دل سے توبہ کرکے اپنے رب سے معافی مانگنی چاہئیے۔رب کی ذات بڑی رحمت وشفقت والی ہے وہ سترماؤں سے بھی زیادہ اپنے ایک بندے سے پیارکرتے ہیں وہ ہمیں معاف کردیں گے۔ان آزمائشوں،تکلیفوں،پریشانیوں اوربلاؤں سے بچنے کے لئے موسم نہیں ہماری اپنی تبدیلی ضروری ہے۔جب تک ہم خودکوتبدیل نہیں کرتے تب تک اس رونے اوردھونے سے کچھ نہیں ہوگا۔