تحریر: ماہ پارہ ذولقدر
پاکستان میں حکومت نے 9 سے 14 سال کی لڑکیوں کے لیے ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام شروع کیا ہے تاکہ مستقبل میں انہیں مہلک سروائیکل کینسر سے محفوظ رکھا جا سکے۔ لیکن اس اہم اقدام کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک منفی مہم اور بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع ہو گیا ہے جس نے والدین میں خوف اور شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ نتیجتاً کئی والدین اپنی بیٹیوں کو یہ ویکسین لگوانے سے گریز کر رہے ہیں۔
سروائیکل کینسر اور ایچ پی وی کیا ہے؟
سروائیکل کینسر خواتین کے تولیدی نظام کے اُس حصے میں ہوتا ہے جسے رحم دہانہ کہا جاتا ہے۔ یہ کینسر عموماً ہیومن پیپیلوما وائرس ، یعنی ایچ پی وی، کے انفیکشن کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جو ایک عام جنسی طور پر منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ ابتدا میں یہ بیماری آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور اکثر سالوں تک کوئی نمایاں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اسی لیے اس کی بروقت تشخیص مشکل ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے مرض بڑھتا ہے تو مریضہ کو غیر معمولی خون آنا، پیلوک ایریا میں درد اور وزن میں کمی جیسی علامات سامنے آ سکتی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 90 فیصد سروائیکل کینسر کے کیسز ایچ پی وی سے منسلک ہیں، لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ یہ کینسر اُن چند بیماریوں میں شامل ہے جن سے ویکسین کے ذریعے بچاؤ ممکن ہے۔

ایچ پی وی وہ وائرس ہے جو جنسی طور پر منتقل ہونے والا سب سے عام انفیکشن ہے اور سروائیکل کینسر کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 90 فیصد سروائیکل کینسر کے کیسز ایچ پی وی انفیکشن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور سے وابستہ ڈاکٹر عمران فاروق کے مطابق "یہ مرض پاکستان میں خواتین کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور بروقت ویکسینیشن ہی بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔اس مرض کی وجہ سے ہر 4700خواتین میں سے کم و بیش 3000سے زائد خواتین کی وفات ہو جاتی ہے۔شرح اموات کے زیادہ ہونے کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ اس خطرناک مرض سے متعلق آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ "
عالمی ادارہ برائے تحقیقِ سرطان کی 2023کی رپورٹ کے اعداد و شمار ڈاکٹر عمران فاروق کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 4,762 خواتین کو سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور تقریباً 3,069 خواتین اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے کے تخمینوں کے مطابق اگرایچ پی وی ویکسینیشن اور اسکریننگ بڑے پیمانے پر نافذ کی جائیں تو آئندہ دہائیوں میں لاکھوں کیسز اور اموات روکی جا سکتی ہیں۔
ویکسین کی افادیت اور تحفظ
ایچ پی وی ویکسین 90 فیصد تک سروائیکل کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ یہ ویکسین دنیا کے 125 سے زائد ممالک میں کامیابی سے لگائی جا رہی ہے۔سروائیکل کینسر کا علاج پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے ایک کمر توڑ خرچ ہے۔ مختلف اسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق ایک مریضہ کے علاج پر اوسطاً 3 سے 5 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، جب کہ کئی کیسز میں لاگت اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس، حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی ویکسین نہ صرف زندگی بچاتی ہے بلکہ خاندانوں کو بڑے مالی بوجھ سے بھی بچاتی ہے۔ اب تک کروڑوں لڑکیوں کو یہ ویکسین دی جا چکی ہے اور کوئی سنگین نقصان دہ اثر سامنے نہیں آیا۔اسی لیے عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف ، دونوں ادارے، اس ویکسین کی بھرپور سفارش کرتے ہیں۔
پروپیگنڈہ کیسے پھیل رہا ہے؟
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ممبر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عائشہ خان کے مطابق صرف 5 فیصد والدین نے اس بیماری کا نام سنا ہے اور صرف 2 فیصد والدین کو اس ویکسین کے بارے میں علم ہے۔ یہ تشویشناک ہے کیونکہ بیماری لاعلمی کی وجہ سے بڑھتی ہے۔ ہم بطور گائنا کالوجسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ والدین کو یہ یقین دہانی کرانا ضروری ہے کہ یہ ویکسین بانجھ پن یا تولیدی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔”
آگاہی کی کمی کے سبب اس ویکسین سے متعلق پاکستان میں منفی پراپیگنڈا تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس پروپیگنڈے کا سب سے تیز ذریعہ سوشل میڈیا ہے، خصوصاً واٹس ایپ، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسی ایپس جہاں جھوٹی اور گمراہ کن پوسٹس تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی گمراہ کن خبرو ں میں یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین لڑکیوں میں بانجھ پن پیدا کرتی ہے اوریہ ویکسین "مغربی ایجنڈا” کا حصہ ہے تاکہ مسلم معاشروں کی آبادی کم کی جا سکے۔
عورت فاونڈیشن سے وابستہ سماجی ورکر فرزانہ بانو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ "بدقسمتی سے دیہی علاقوں میں ایچ پی وی ویکسین کے خلاف پروپیگنڈہ زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ والدین کو قائل کرنے کے لیے کمیونٹی لیول پر خواتین ہیلتھ ورکرز، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کو شامل کرنا ہوگا۔ جب تک سماجی اعتماد پیدا نہیں ہوگا، ویکسینیشن مہم پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی۔”
یہ تمام دعوے نہ صرف سائنسی طور پر غلط ہیں بلکہ والدین کو خوفزدہ کر کے بچیوں کو ایک جان بچانے والے حل سے محروم کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دعوؤں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔مذہبی سکالر پروفیسر ڈاکٹر قاری ظفر اقبال صاحب، یونیورسٹی آف میانوالی کا کہنا ہے کہ ” پروپیگنڈہ مہم میں عموماً مذہبی جذبات کو بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی حفاظت سب سے بڑی ترجیح ہے۔ طبی ماہرین اور بعض علما اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی دوا یا ویکسین کسی جان لیوا مرض سے بچاتی ہے تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور اپنی بچیوں کو اس جان بچانے والی سہولت سے محروم نہ کریں۔”

بین الاقوامی تحقیقات اور عالمی اداروں کے جائزوں سے ثابت ہے کہ اس ویکسین کا بانجھ پن یا تولیدی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ہے۔یہ ویکسین دنیا بھر میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے استعمال ہو رہی ہے اور لاکھوں زندگیاں بچا چکی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ویکسین کے حوالے سے شہروں اور دیہی علاقوں میں رویوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں چونکہ معلومات تک رسائی زیادہ ہے، والدین ویکسین کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں افواہیں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور لاعلمی کے باعث والدین شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اعتماد سازی کے لیے مزید محنت درکار ہے۔
کہاں بہتری کی ضرورت ہے؟
ماہرین کے مطابق دو چیزیں سب سے زیادہ ضروری ہیں۔
مقامی زبان میں صاف اور سادہ پیغام رسانی اورویکسین کے بعد کسی بھی ردِعمل کی رپورٹنگ کا شفاف نظام۔
والدین جاننا چاہتے ہیں کہ کون سی ویکسین استعمال ہو رہی ہے؟ کتنے ڈوزز لگیں گے؟ سائیڈ ایفیکٹس کی صورت میں کہاں رجوع کیا جائے گا؟ اور اسکولز والدین کی اجازت کیسے لیں گے؟ اگر حکام ان سوالات کے واضح اور شفاف جواب فراہم کریں تو والدین کا اعتماد بڑھے گا۔
اس مہم کی کامیابی کے لیے والدین اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ اگر والدین کھل کر اپنی بچیوں کو اعتماد دیں اور اسکول اساتذہ سادہ زبان میں ویکسین کی افادیت سمجھائیں تو یہ خوف اور شکوک بہت حد تک ختم ہو سکتے ہیں۔ کمیونٹی کی سطح پر اعتماد بڑھانا ہی پروپیگنڈہ کا توڑ ہے۔
ان افواہوں کا مقابلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور سول سوسائٹی مل کر ڈیجیٹل لٹریسی پروگرامز، فیکٹ چیکنگ مہمات اور بروقت وضاحتیں جاری کریں تاکہ والدین کو مستند معلومات تک رسائی حاصل ہو۔
پاکستان میں ویکسینیشن پروگرام
وفاقی ای پی آئی پروگرام کے تحت حکومت ِ پاکستان نے ستمبر 2025 میں ملک بھر میں ویکسین مہم کا آغاز کیا۔اس ویکسین کا ٹارگٹ گروپ 9 سے 14 سال کی بچیاں ہیں۔ اسکولز، مدرسے اور کمیونٹی مراکز کے ذریعے ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ بچیوں کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔یہ ویکسین بالکل مفت دستیاب ہے اور ڈاکٹرز و نرسز والدین کو آگاہی دینے کے لیے کمیونٹی لیول پر بھی کام کر رہے ہیں۔
"سول ہسپتال کراچی میں تعینات ایم ایس ڈاکڑمحمد سلیم کا کہنا ہے کہ "ہمارے ہسپتالوںمیں سروائیکل کینسر کا علاج کروانے والی بیشتر خواتین کا تعلق غریب طبقے سے ہوتا ہے۔ علاج پر لاکھوں روپے خرچ آتا ہے جو ان کے لیے ممکن نہیں۔ اس کے مقابلے میں حکومت کی طرف سے دی جانے والی ویکسین مفت ہے اور بچیوں کو ایک جان لیوا مرض سے بچاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بلا جھجک ویکسین لگوائیں۔”
پروپیگنڈہ روکنے کے طریقے
اس مسئلے کا حل صرف اور صرف درست معلومات کی فراہمی اور عوامی آگاہی ہے۔ ضروری ہے کہ ڈاکٹرز، گائناکالوجسٹس اور ہیلتھ ورکرز کے ذریعے آگاہی مہمات کو بڑھایا جائے۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر مستند اعداد و شمار اور عالمی اداروں کی رپورٹیں شیئر کی جائیں۔اسکولوں اور مساجد کی سطح پر والدین کو اعتماد میں لیا جائے۔حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر فیک نیوز مانیٹرنگ سیل قائم کرنا چاہیے تاکہ جھوٹی خبریں فوراً روکی جا سکیں۔
نتیجہ
” سروسز ہسپتال لاہور سے وابستہ گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر شبانہ مختار کے مطابق "ایچ پی وی ویکسین لڑکیوں کو مستقبل میں سروائیکل کینسر جیسے مہلک مرض سے محفوظ رکھنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ بدقسمتی سے والدین میں آگاہی کی کمی اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات ویکسین کے خلاف خوف پیدا کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ویکسین نہ صرف محفوظ ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔” ایچ پی وی ویکسین بچیوں کو مستقبل میں سروائیکل کینسر سے بچانے کا ایک محفوظ، آزمودہ اور مؤثر طریقہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کی بے بنیاد افواہوں کے بجائے سائنسی حقائق پر بھروسہ کریں اور اپنی بیٹیوں کو یہ ویکسین ضرور لگوائیں۔ یہ ان کی صحت، زندگی اور ایک محفوظ کل کے لیے ناگزیر قدم ہے۔