تحریر: شیرافضل گوجر
آج سولہ ستمبر کو دنیا بھر میں شناخت کا عالمی دن اس غرض سے منایا جاتا ہے کہ ہم ان تمام انسانوں کی آواز سن سکیں جنہیں اپنے وجود کو منوانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ شناخت دراصل محض ایک لفظ نہیں، بلکہ یہ بقاء کا سوال ہے۔ "میں کون ہوں؟” یہ سوال ہر انسان کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن جب یہ سوال ایک ایسے سماج کے سامنے رکھا جائے جو عقل کی پگڈنڈیوں پر رواں ہونے کے بجائے پدرسری رویوں اور انسان کش نظریات کے بھاری پتھروں تلے دبا ہوا ہے، تب یہ سوال محض سوال نہیں رہتا بلکہ زندگی اور موت کا فیصلہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی اسی بحران کا سب سے واضح مظہر ہے۔ وہ اپنی صنفی شناخت کو منوانا چاہتے ہیں مگر معاشرہ اُنہیں ہمیشہ کسی "فیلڈ”، "پیشہ” یا "فحاشی” سے منسلک کر دیتا ہے۔ یوں شناخت کا یہ بنیادی حق، جس پر انسانی وقار کا سارا ڈھانچہ کھڑا ہے، اُن سے چھین لیا جاتا ہے۔
شناخت اور پدرسری سماج کی تقسیم
پدرسری سماج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو اُس کی جنس کے مطابق ایک مزدوری تفویض کی جائے۔ عورت کی پہچان تولیدی مزدوری ہے، مرد کی پہچان کمانا اور طاقت کے مراکز پر قابض ہونا ہے،اور خواجہ سرا کی پہچان؟
یہاں معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
خواجہ سرا کو سماج نے ہمیشہ "جنسی مزدوری” یا سادہ الفاظ میں "جسم فروش” کے خانے میں ڈال کر رکھا ہے۔ وہ محض لذت کے سامان کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ یہ سوچ اس قدر گہری ہے کہ ایک خواجہ سرا اگر اسکول جانا بھی چاہے، دفتر میں نوکری کرے یا سیاسی میدان میں قدم رکھے، تو بھی سماج اُس کے وجود کو "خواجہ سرا” کے ساتھ وابستہ جنسی تصورات کے بغیر دیکھنے سے قاصر ہے۔
اس مقام پر ہمیں ایک اہم فلسفیانہ نکتہ سمجھنا ہوگا۔ شناخت ایک سماجی معاہدہ ہے یعنی میں جو کچھ ہوں، وہ صرف میری اپنی مرضی کا نہیں بلکہ معاشرے کے قبول کرنے یا رد کرنے کا بھی نتیجہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کا بحران سب سے شدید ہو جاتا ہے۔
جنسی مزدوری اور سماجی منافقت
ہمارا معاشرہ جنسی لذت کے باب میں عجیب و غریب منافقت رکھتا ہے۔ بظاہر یہ موضوع ممنوع ہے، لیکن پس پردہ پوری معیشت اور ثقافت اس پر استوار ہے۔
خواجہ سرا افراد اور طوائفیں اس نظام کی وہ "جنسی مزدور” ہیں جن کے بغیر مردانہ سماج کا توازن قائم نہیں رہ سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ جب خواجہ سرا افراد عوامی مقامات پر یا تعلیمی اداروں میں عزت کی تلاش کرتے ہیں، تو سماج میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اُن کی موجودگی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہماری اپنی جنسی منافقت کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ اور یہ عکس برداشت کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔
شناخت کا سوال: انفرادی یا اجتماعی؟
لبرل فیمنزم نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہر انسان کی انفرادی چوائس ہی اُس کی اصل شناخت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ "انفرادی چوائس” بھی صدیوں پرانے پدرانہ ڈھانچوں کے اندر محدود ہو تو کیا یہ واقعی انفرادی کہلائی جا سکتی ہے؟
خواجہ سرا افراد کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ ان میں سے اکثر جب اپنی صنفی شناخت کو تسلیم کرتے ہیں تو انہیں سماج فوراً جنسی مزدوری کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یوں وہ اپنی شناخت اور اپنی مزدوری کے درمیان فرق ہی نہیں کر پاتے۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ خواجہ سرا ہونا ہی "فیلڈ” ہے۔
یہاں اصل المیہ کھلتا ہے:
صنفی شناخت اور پیشہ ورانہ اختیار کے درمیان لکیر مٹ گئی ہے۔ اور یہ لکیر مٹانے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود معاشرہ ہے۔
ریاست اور مذہبی اداروں کا کردار
پاکستان میں خواجہ سرا افراد کے لیے نہ سکول کھولے گئے، نہ کالج، نہ پروفیشنل ٹریننگ سینٹرز۔ جب کبھی ان کے لیے روزگار یا تعلیم کی راہیں کھلیں تو مذہبی طبقہ فوراً "یہودی ایجنڈا” یا "مغربی سازش” کا الزام لگا کر اس کوشش کو بدنام کر دیتا ہے۔
ریاست بھی اپنی ذمہ داری سے غافل رہی ہے۔ شناختی کارڈ پر "تیسری جنس” کا خانہ تو شامل کر دیا گیا، لیکن اس خانے کا مطلب یہ نکلا کہ خواجہ سرا ایک علیحدہ، کمتر اور ہمیشہ "جنسی” سمجھا جانے والا وجود ہیں۔ گویا ریاست نے بھی اُنہیں اصل سماجی دھارے میں شامل کرنے کے بجائے ایک نیا حاشیہ فراہم کر دیا۔
فلسفیانہ زاویہ: "میں کون ہوں؟”
ہیگل کے مطابق شناخت صرف اُس وقت وجود میں آتی ہے جب دوسرا فرد آپ کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ یعنی میں جو ہوں، وہ اس وقت تک مکمل نہیں جب تک دوسرا مجھے "مان” نہ لے۔
خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اُنہیں سماج تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یوں اُن کی شناخت ہمیشہ "ادھوری” رہتی ہے۔
یہی شناخت کا بحران ہے۔
یہ صرف جنس کا مسئلہ نہیں، یہ اُس بنیادی انسانی سوال کا مسئلہ ہے جو صدیوں سے فلسفے کے زیرِ بحث رہا ہے: "میں کون ہوں، اور مجھے کون مانتا ہے؟”
معاشرتی شراکت اور امید
تمام تر مشکلات کے باوجود خواجہ سرا کمیونٹی نے پاکستان میں اپنی موجودگی کو منوانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ آج وہ سیاسی جلسوں میں آواز بلند کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور عدالتوں تک پہنچتے ہیں۔
لیکن یہ جدوجہد تنہا اُن کی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم واقعی شناخت کے عالمی دن کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا افراد کی شناخت محض اُن کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سماج کی آئینہ داری ہے۔
جب تک ہم اُنہیں عزت اور وقار کے ساتھ قبول نہیں کریں گے، ہماری اپنی اجتماعی شناخت بھی ادھوری رہے گی۔
خواجہ سرا کمیونٹی کے بحران کو محض "فحاشی” کے لیبل سے سمجھنا زیادتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سماج اُنہیں اپنی جنسی منافقت کا جیتا جاگتا ثبوت سمجھتا ہے۔ اور ثبوت ہمیشہ چھپائے جاتے ہیں،نہ کہ دکھائے جاتے ہیں۔
لیکن یاد رکھئے، رات ہمیشہ آتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ رات ظلمت کے بجائے روشنی کی نوید لائے تو ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں وہ سب کاوشیں کرنی ہوں گی جو خواجہ سرا افراد کو کوٹھے سے نکال کر اسکول، کالج، دفاتر اور پارلیمان تک لے جائیں۔
شناخت کا عالمی دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہر انسان کی اصل پہچان اُس کی انسانیت ہے، نہ کہ اُس کی جنس یا اُس کا پیشہ۔
اور اگر ہم یہ سبق نہ سیکھ سکے تو ہماری اپنی شناخت بھی ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔