Skip to content

نشے کی زنجیروں میں جکڑے نوجوان

شیئر

شیئر

تحریر: بلال سعید

نوجوانی انسان کی زندگی کا سب سے حسین دور ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں خواب آنکھوں میں بستے ہیں اور امیدیں دل میں جڑ پکڑتی ہیں۔ مگر افسوس کہ یہی عمر اگر غلط راستے پر ڈال دی جائے تو سب خواب خاک ہو جاتے ہیں اور ساری امیدیں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نوجوان نسل نشے کی زنجیروں میں جکڑتی جا رہی ہے۔

نشہ ایک ایسا زہر ہے جو لمحوں کی لذت کے بدلے پوری زندگی کو تاریکی میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ پہلے دوستوں کی محفل میں شوق کے طور پر شروع ہوتا ہے، مگر رفتہ رفتہ عادت اور پھر ایسی قید بن جاتا ہے جس سے نکلنا ناممکن سا لگتا ہے۔ نوجوان جو کبھی اپنی توانائی اور ہمت کے لیے جانے جاتے تھے، آج بے بسی اور بربادی کی تصویر بنتے جا رہے ہیں۔

نشے نے نہ صرف ان کی صحت اور مستقبل چھین لیا ہے بلکہ خاندانوں کی خوشیاں بھی نگل لی ہیں۔ والدین کی آنکھوں کے خواب ٹوٹ رہے ہیں، معاشرہ اپنے معمار کھو رہا ہے، اور ایک پوری نسل اپنی راہوں سے بھٹک رہی ہے۔ یہ المیہ محض چند افراد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے، کیونکہ جب نوجوان کمزور ہو جائیں تو قوم کے خواب بھی مرجھا جاتے ہیں۔

نشہ وقتی سکون ضرور دیتا ہے مگر یہ سکون ریت کی دیوار کی طرح ہے، جو ذرا سی ہوا سے بکھر جاتا ہے۔ اس کی گرفت میں آنے والے نوجوان لمحاتی خوشی کے بدلے اپنا حال ہی نہیں بلکہ مستقبل بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ وہ تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں، خوابوں کی پرواز کھو دیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو خود ہی جلا ڈالتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ یہ زہر اکیلا نہیں آتا بلکہ ساتھ کئی برائیاں بھی لے کر آتا ہے۔ جھوٹ، چوری، جھگڑے، بے راہ روی اور بے مقصد زندگی… سب اسی کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں۔ وہ نوجوان جو کل تک والدین کی آنکھوں کا تارا تھے، آج انہی کی آنکھوں کا کانٹا بن جاتے ہیں۔ یہ صرف ان کی اپنی نہیں بلکہ پورے خاندان کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔

اصل دکھ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان جو کتابوں کے دوست اور خوابوں کے سفیر ہونے چاہیے تھے، آج نشے کے عادی ہو کر اپنی طاقت ضائع کر رہے ہیں۔ یہ وہ عمر ہے جس میں قوموں کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں، مگر افسوس کہ نشہ ان بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو آنے والے وقت میں ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی جو نہ اپنے لیے مفید ہوگی اور نہ ہی اپنے معاشرے کے لیے۔

نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں، ان کا جذبہ اور ان کی جوانی ہی وہ قوت ہے جو کسی ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے معاشرے میں یہی نوجوان اپنی اصل طاقت بھول کر ایسی راہوں پر گامزن ہیں جو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کتابیں، قلم اور خواب ہونے چاہئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں اب سگریٹ، بوتلیں اور نشے کے آلات دکھائی دیتے ہیں۔

نشہ صرف ایک عادت نہیں بلکہ ایک زہر ہے جو دھیرے دھیرے جسم، روح اور ذہن کو کھا جاتا ہے۔ یہ ایسا دلدل ہے جس میں اترنے والا جتنا نکلنے کی کوشش کرے اتنا ہی زیادہ دھنستا جاتا ہے۔ افسوس کہ اس دلدل میں آج سب سے زیادہ وہ نوجوان ہیں جنہیں اس ملک کا سہارا بننا تھا۔

ساغر صدیقی کا شہر لاہور اپنے اندر کئی داستانیں دفن کر چکا ہے اور ساتھ میں کئی ماؤں کے لالوں کی جوانیوں کو نگل رہا ہے، کیونکہ دفتر آتے جاتے سڑکوں اور پارکوں میں ایسے نشے میں چور نوجوان نظر آتے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ یہ نشہ جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں اور اپنے ہاتھوں سے جسم کے مختلف حصوں میں نشہ آور انجکشن لگا رہے ہیں، کئی ہواؤں میں دھواں اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی جلتے سگریٹ سے اپنے جسم کو جلا رہا ہے تو کوئی کانچ کی بوتلیں ٹکرا کر لڑکھڑا رہا ہے اور ساتھ گنگنا رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ذہن میں ایک ہی سوال پیدا ہوتا ہے: آخر کیوں میرے نوجوان اپنی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ منظر دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ ان نوجوانوں کی حالت اس وقت اور بھی خوفناک ہو جاتی ہے جب انہیں نشہ میسر نہیں آتا۔ ان کی کیفیت یوں ہوتی ہے گویا سڑک کنارے کوئی لاش پڑی ہو۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بال نوچتے ہیں، گرد و غبار میں لپٹے جسم کے ساتھ نشے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ان کا یہ حال صرف ان کی اپنی زندگی ہی برباد نہیں کرتا بلکہ ان کے خاندان والوں کے لیے بھی ایک نہ ختم ہونے والے دکھ کا سامان بن جاتا ہے۔

نشے کے اس جان لیوا زہر کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ حکومت سخت ترین قانون سازی کرے۔ نشہ بیچنے اور پھیلانے والے دراصل نوجوان نسل کے قاتل ہیں۔ ان کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں یہ زہر مزید نہ پھیل سکے۔ اگر اس مکروہ دھندے کو روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو آنے والی نسلیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوں گی۔

ساتھ ہی والدین کی ذمہ داری بھی بہت اہم ہے۔ اکثر اوقات نوجوان غلط صحبت اور دوستوں کی وجہ سے نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد پر گہری نظر رکھیں، ان کے دوستوں کو پہچانیں، ان کی عادات پر نظر رکھیں اور وقت پر ان سے بات کریں۔ یہ توجہ نہ صرف نوجوان کو محفوظ رکھ سکتی ہے بلکہ ان کے مستقبل کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نشے کے نقصانات پر خصوصی لیکچرز، سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کو اس بات کا شعور ہو کہ نشہ وقتی سکون نہیں بلکہ مستقل بربادی ہے۔ جب نوجوان خود سمجھ جائیں گے کہ یہ راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے تو وہ اس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

میڈیا کا کردار بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے۔ ڈراموں، فلموں اور اشتہارات کے ذریعے نشے کے خلاف شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ آج جب میڈیا ہر گھر تک رسائی رکھتا ہے تو اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تحریک پیدا کی جا سکتی ہے جو نوجوانوں کے دلوں کو جھنجھوڑ دے اور انہیں روشنی کی طرف لے جائے۔

آخر میں، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل کر نشے کے خلاف آواز بلند کریں۔ حکومت، والدین، اساتذہ، علماء اور میڈیا سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ ہم اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس وبا کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس زہر سے محفوظ رہیں۔ اگر آج ہم نے قدم نہ اٹھایا تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں