رابعہ سید
بہت دنوں بعد آج چہل قدمی کا موقع ملا میں اپنے گھر کے قریبی پارک میں کبھی کبھار چہل قدمی کے لئے جاتی ہوں جس سے بہت سکون ملتا ہے، درختوں کے گھنے سائے، ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے ،پرندوں کی چہچہاہٹ اور پیارے پیارے ننھے ننھے بچوں کی شراتیں ماحول کو اور بھی خوشگوار بنا دیتی ہے، آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں کافی دیر سارے ماحول سے محظوظ ہوتی رہی اور پھر شام کے دھندلکوں نے گھنٹی بجائی کے چلو بی بی اب گھر کی راہ لو ۔
زندگی کی گاڑی دو پہیوں پر چلتی ہے، اور یہ دونوں پہیے عورت اور مرد ہیں۔ مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک پہیے کی تھکن کو دوسرے پہیے کی آسانی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے دن بھر کے بوجھ کے باوجود ایک دوسرے کی کیفیت کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔
عورت کی دنیا:
گھر میں رہنے والی عورت کے لئے لوگ عموماً یہ تاثر رکھتے ہیں کہ وہ سارا دن آرام میں گزارتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ناشتہ تیار کرنا، بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنا، شوہر کو دفتر کے لئے بھیجنا، گھر کی صفائی، کھانا پکانا، مہمانوں کی دیکھ بھال، بجلی پانی اور بازار کے چھوٹے بڑے معاملات—یہ سب ذمہ داریاں عورت کے کندھوں پر ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی خواتین شام ڈھلے یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ دماغی اور جسمانی طور پر تھک چکی ہیں۔ ایسے میں وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے، کچھ دیر آزاد فضا میں سانس لینے، یا سہیلیوں کے ساتھ چند لمحے گزارنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات بھی کہتے ہیں کہ گھر میں قید رہنے والی خواتین کو "کچن سنڈروم” یا گھریلو بوجھ کے دباؤ کی شکایت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انھیں وقتاً فوقتاً گھر سے باہر جانے کا موقع دیا جائے۔
مرد کی دنیا:
دوسری طرف مرد کی زندگی دیکھیں۔ دفتر یا بازار میں وقت گزارتے ہوئے وہ مسلسل دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ وقت پر پہنچنے کی فکر، باس کی ڈانٹ، مالی معاملات کی تنگی، ٹریفک کا شور، معاشرتی مقابلہ بازی، اور اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اسے ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتی ہے۔ شام کو جب وہ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ یہ جگہ سکون کا گہوارہ بنے، نہ کہ نئی لڑائی یا شکوے شکایات کا میدان۔
ماہرینِ سماجیات کے مطابق مرد کے لئے گھر ایک "ری چارجنگ اسٹیشن” ہے، جہاں وہ اپنی توانائی واپس حاصل کرتا ہے تاکہ اگلے دن پھر میدانِ عمل میں جا سکے۔
مسئلے کی جڑ:
یہاں مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب عورت اور مرد دونوں اپنی اپنی ضرورت تو بیان کرتے ہیں مگر دوسرے کی کیفیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عورت کہتی ہے: "میں سارا دن گھر میں قید رہتی ہوں، مجھے باہر لے جاؤ۔” اور مرد کہتا ہے: "میں سارا دن باہر تھک کر آتا ہوں، مجھے گھر میں سکون چاہیئے۔” دونوں اپنی بات درست کہتے ہیں مگر حل تب نکلتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی نفسیات کو سمجھنے لگیں۔
حل کیا ہے؟
- وقت کی تقسیم: شوہر اگر ہفتے میں کم از کم ایک دن بیوی بچوں کے ساتھ باہر وقت گزار لے تو یہ اس کے لئے تازگی کا ذریعہ بنے گا۔
- گھر کا سکون: بیوی اگر شوہر کی تھکن کو سمجھ کر شام کے وقت نرم گفتگو اور خوشگوار ماحول فراہم کرے تو یہ مرد کے لئے سکون دہ ہوگا۔
- گفتگو کی عادت: دونوں اپنی ضروریات کھل کر بیان کریں مگر ایک دوسرے پر بوجھ ڈالے بغیر۔
- چھوٹے وقفے: عورت کے لئے روزانہ دس پندرہ منٹ کا وقت صرف اپنی ذات پر دینا، جیسے واک کرنا یا کتاب پڑھنا، ذہنی سکون کا باعث ہے۔ مرد بھی دفتر سے واپسی پر چند منٹ کا تنہائی کا وقفہ لے کر گھر میں خوشگوار رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
زندگی کا حسن توازن میں ہے۔ مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی جگہ مشقت کرتے ہیں۔ اگر مرد عورت کے احساسات کو سمجھے اور عورت مرد کے دباؤ کو پہچانے تو زندگی کا سفر آسان ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو وقت اور آزادی دینا دراصل رشتے کو مضبوط بنانے کا عمل ہے۔