رابعہ سید : کالم نگار
انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو کان دیے ہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف سننا نہیں بلکہ دونوں طرف کی بات کو یکساں سن کر انصاف کے قریب ہونا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں المیہ یہ ہے کہ ہم اکثر ایک ہی طرف کی بات سن کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ یوں انصاف تو کجا، ظلم کو تقویت ملتی ہے اور ناانصافی ایک روایت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
یک طرفہ سننے کا نقصان
جب ہم صرف ایک طرف کی سن کر رائے قائم کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر ہم دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈال دیتے ہیں۔ یہی رویہ گھر میں ہو تو میاں بیوی کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، خاندان میں ہو تو بہن بھائیوں کے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں، اور اگر معاشرتی یا قومی سطح پر ہو تو ادارے اور معاشرے بکھر جاتے ہیں۔
طاقتور کی حمایت، کمزور کی حق تلفی
ہمارے ہاں یہ عمومی رویہ پایا جاتا ہے کہ جس کا پلڑا بھاری ہو، جس کے تعلقات مضبوط ہوں یا جس کے پاس دنیاوی اثر و رسوخ ہو، اسی کی بات کو سچ مان لیا جاتا ہے۔ کمزور کی فریاد کو یا تو سنا ہی نہیں جاتا یا پھر اُسے جھوٹ اور الزام تراشی قرار دے کر دبایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ناانصافی کے شکار لوگ دلوں میں کڑواہٹ، غم اور بیزاری لیے رہ جاتے ہیں۔
انصاف کی بنیاد: دونوں طرف سننا
قرآن مجید ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ انصاف دشمن کے ساتھ بھی لازم ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم ہر معاملے میں دونوں فریقوں کو سنیں۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا:
"جب تمہارے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئیں تو فیصلہ کرنے سے پہلے دونوں کو سنو، یہ زیادہ انصاف کے قریب ہے۔”
خاندانی نظام پر اثرات
ہمارے گھروں میں اکثر جھگڑے اسی وجہ سے شدت اختیار کرتے ہیں کہ بزرگ یا والدین ایک کی بات سن کر فیصلہ کر دیتے ہیں۔ کسی بہو یا داماد کو سنے بغیر الزام تھوپ دیا جاتا ہے، یا کسی بھائی یا بہن کی بات کو حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ محبت کے رشتے نفرت میں بدل جاتے ہیں اور خاندان بکھر جاتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر ناانصافی
یہی رویہ عدالتوں، دفاتر اور اداروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ سفارش یا تعلقات کے زور پر ایک فریق کو فوقیت مل جاتی ہے۔ ایسے میں معاشرہ انصاف کی روح سے خالی ہو جاتا ہے اور افراد کا اعتماد اداروں سے اٹھ جاتا ہے۔ پھر بغاوت اور بداعتمادی جنم لیتی ہے جو پوری قوم کو نقصان پہنچاتی ہے۔
حل کیا ہے؟
- ہر معاملے میں دونوں فریق کو سننے کی عادت ڈالیں۔
- انصاف کو تعلقات، رشتہ داری یا طاقت سے بالاتر رکھیں۔
- اداروں میں شفاف نظام اپنایا جائے تاکہ کمزور کی آواز بھی سنی جائے۔
- بچوں کی تربیت میں عدل کو بنیادی اصول بنایا جائے۔
انصاف صرف عدالت کے کمرے تک محدود نہیں ہوتا، یہ ہر گھر، ہر خاندان اور ہر تعلق میں بنیادی شرط ہے۔ اگر ہم نے کان صرف ایک طرف رکھنے کی عادت نہ بدلی تو ہماری زندگیاں انتشار، ناانصافی اور نفرت سے بھر جائیں گی۔ یاد رکھیے! دو کان صرف سننے کے لیے نہیں، بلکہ دونوں طرف کی بات سن کر عدل کرنے کے لیے ہیں۔