یاماہا کا پاکستان سے انخلا: ایک صنعتی ناکامی یا پالیسی کی کمزوری؟
رپورٹ: ہزارہ ایکسپریس نیوز
پاکستانی موٹر سائیکل مارکیٹ میں یاماہا کا نام ایک معیار، جدت اور اعتماد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ اعلان کہ کمپنی پاکستان میں اپنی موٹر سائیکل مینوفیکچرنگ کا عمل بند کر رہی ہے، نہ صرف صنعت کے ماہرین بلکہ عام صارفین کے لیے بھی ایک بڑا سوال چھوڑ گیا ہے: آخر ایک عالمی برانڈ نے یہاں سے رختِ سفر کیوں باندھا؟
مارکیٹ کا دباؤ اور مقامی حقیقت
پاکستان میں موٹر سائیکل انڈسٹری کا حجم لاکھوں یونٹس سالانہ ہے۔ ہونڈا، سوزوکی اور چینی برانڈز کی بھرمار نے مقابلے کو شدید بنا دیا ہے۔ موٹر سائیکل صارفین یہ تسلیم۔کرتے ہیں کہ یاماہا کی موٹر سائیکلز معیار میں اعلیٰ مگر قیمت میں بھاری تھیں۔ ایسے میں عام صارف،جو روزمرہ سفر کے لیے ایک سستا اور ایندھن بچانے والا آپشن چاہتا تھا، یاماہا کو ایک "پریمیم برانڈ” کے طور پر دیکھتا رہا۔
یہی وہ جگہ تھی جہاں مارکیٹ نے یاماہا کو قبول تو کیا، مگر بڑی حد تک محدود دائرے میں۔
پاکستان میں صنعتی ماحول پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے۔ملک میں توانائی کا بحران سارے کاروباری مسائل کی بنیاد ہے ،بجلی مہنگی ہے اور دستیاب نہیں ہے ،بلند ڈالر ریٹ، خام مال کی درآمد پر بھاری ٹیکسز، اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال نے یاماہا کے لیے یہاں مینوفیکچرنگ جاری رکھنا مشکل بنا دیا۔ ماہرین کے مطابق حکومت کی طرف سے موٹر سائیکل انڈسٹری کے لیے کوئی جامع صنعتی پالیسی نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ بنی۔ یاماہا جیسے عالمی برانڈ کے لیے جب پالیسی میں استحکام نہ ہو تو سرمایہ کار کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔
صارفین کا ردعمل
یاماہا کے صارفین ہمیشہ اس کے ڈیزائن، معیار اور ٹیکنالوجی کو سراہتے رہے ہیں مگر ساتھ یہ سوال بھی اٹھاتے رہے ہیں کہ کیا یاماہا پاکستان میں محض پیسے والے اور شوقین افراد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے یا جو وہ لوگ جو گاڑی افورڈ نہیں کرسکتے اور فیشن کے بجائے موٹر سائیکل کو بطور ضرورت استعمال کرتے ہیں؟ ایک ہی انجن کے ساتھ آخر مارکیٹ میں مقابلہ کیسے ممکن ہے؟ یاماہا نے مارکیٹ کے رجحان کا تجزیہ کیوں نہیں کیا؟کیا الیکٹرک بائیک کی آمد نے یاماہا کو انخلا پر مجبور کر دیا ہے یا کوئی اور وجہ ہے پالیسی میں تبدیلی کے پیچھے آخر کوئی تو وجہ ہے ؟ ۔اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی اس برانڈ کی موٹر سائیکل استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے مستقبل کیا ہوگا؟ کیا اسپیئر پارٹس اور سروس دستیاب رہیں گی؟ کمپنی نے یقین تو دہانی کرائی ہے کہ سروس نیٹ ورک جاری رہے گا، مگر صارفین کے خدشات اپنی جگہ قائم ہیں۔
یاماہا کے انخلا نے ایک وسیع تر بحث کو جنم دیا ہے: کیا پاکستان عالمی برانڈز کے لیے ایک "ناقابلِ اعتماد” مارکیٹ بنتا جا رہا ہے؟ اگر ایک کمپنی جو نوجوانوں اور شہری صارفین میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی تھی، یہاں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی، تو کل کو دیگر سرمایہ کار بھی اسی راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
در حقیقت یاماہا کا پاکستان سے انخلا صرف ایک کمپنی کا نقصان نہیں، یہ ہماری صنعتی پالیسی ،گورننس اور معاشی حکمت عملی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر حکومت نے اس موقع پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو ممکن ہے آنے والے وقت میں مزید عالمی کمپنیاں پاکستان کی مارکیٹ سے اپنا بوریا بستر باندھ لیں گی ۔
یاماہا کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ ہمیں یہ سبق یاد دلاتا ہے کہ محض صارفین کی بڑی تعداد کسی برانڈ کو قائم رکھنے کے لیے کافی نہیں، بلکہ پالیسی کی شفافیت، گڈ گورننس ،معاشی استحکام اور کاروباری آسانیاں ہی وہ بنیاد ہیں جن پر کسی بھی عالمی کمپنی کا اعتماد کھڑا رہتا ہے۔