تحریر : وحید مراد
شعور اور بے شعوری کا پیمانہ کیا ہے؟
مقامی اور مغربی ملحدین میں فرق؟ معصومانہ مغالطوں کا تجزیہ
ہمارے معاشرے میں "شعور” اور "بے شعوری” کے بارے میں کئی مغالطے پائے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر کی جڑ رٹا کلچر اور سطحی سوچ میں ہے۔ عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس اعلیٰ ڈگریاں ہوں، وہ برسرِ روزگار ہو، معاشی طور پر مستحکم ہو، روایت پر سوال اٹھاتا ہو، فلسفہ پڑھتا ہو یا فلسفیانہ جستجو کرتا ہووہی "باشعور” ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف سوال اٹھانا، فلسفہ پڑھ لینا یا کسی سائنسی و عقلی دلیل سے متاثر ہونا ہی شعور ہے؟ یا شعور کا اصل مفہوم اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے؟
اسی طرح "بے شعوری” کے بارے میں بھی کئی سطحی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک کم علم مسلمان، ایک گناہگار، ایک روایت پر چلنے والا یا معاشی طور پر کمزور فرد کو فوراً "بے شعور” کہہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کم علم ہو کر بھی اپنے خالق سے جڑا رہ سکتا ہے، کوئی گناہگار بھی اپنے ضمیر میں ایمان کی روشنی محفوظ رکھ سکتا ہے اور کوئی سادہ لوح شخص بھی اپنی فطرت کی گہرائی میں خلوص کے ساتھ یقینِ کامل کا حامل ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو "بے شعور” کہہ کر ایک ملحد سے بھی کمتر قرار دینا نہ صرف ناانصافی بلکہ ایک سنگین فکری لغزش ہے۔ کیونکہ دین اور تہذیب کے نزدیک اصل قدر ایمان اور یقین ہے نہ کہ محض فلسفیانہ مطالعہ یا جدیدیت سے مرعوب ہونا۔ ایمان کی ایک جھلک بھی ملحد کے فلسفیانہ مغالطوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایمان میں کمزوری، لاعلمی یا عملی کوتاہی قابلِ معافی ہے، لیکن الحاد اور انکار ناقابلِ معافی ہیں۔
دینی و تہذیبی تناظر میں شعور کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی عقل و فطرت کو استعمال کرتے ہوئے حق کو پہچانے، ضد اور تعصب کو ختم کرے، اپنے خالق سے شعوری تعلق قائم کرے اور اپنی ذات، خاندان، معاشرے اور تہذیب کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ وہ شخص باشعور ہے جو اپنی عقل کو خواہشات اور انا کا غلام نہ بننے دے بلکہ اسے اخلاص اور غیر جانب داری کے ساتھ خیر کی تلاش میں استعمال کرے۔ اس تعریف کے مطابق کوئی مقامی ملحد باشعور ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنے وجود کی سب سے بڑی سچائی، یعنی خالق کا منکر ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی بے شعوری ہے۔
مقامی ملحد شعور کی انتہا پر نہیں بلکہ گمراہی کی انتہا پر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ مذہب، تہذیب اور اقدار سب کا منکر بن کر خود کو خلا میں لے آتا ہے جہاں نہ کوئی مرکز ہے، نہ کوئی مقصد اور نہ کوئی پناہ گاہ۔ تاریخ اور نفسیات دونوں یہ بتاتے ہیں کہ الحاد اکثر ذہنی بیماری، وجودی بحران اور خودکشی تک جا پہنچتا ہے۔ یہ کیسے شعور کی علامت ہو سکتا ہے کہ انسان کائنات کے سب سے بڑے سوال یعنی خالق اور مقصدِ وجودسے ہی کٹ جائے؟
ایک مقامی ملحد کو باشعور اور حق کی تلاش میں مخلص قرار دینے سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ جیسے وہ یقینی طور پر اسلام تک پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ محض قیاس ہے۔شعور کی راہیں صرف اسی کے لیے کھلتی ہیں جو اخلاص اور نیتِ صادقہ کے ساتھ صداقت کی تلاش کرے، ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ نہیں۔ عملاً بیشتر مقامی ملحدین ضد، انکار اور تعصب ہی پر ڈٹے رہتے ہیں۔ اس لیے انہیں باشعور کہنا ان کے موقف کو غیر ضروری جواز فراہم کرتا ہے۔
مغربی اور مقامی ملحدین کے درمیان فرق نہایت اہم ہے۔ مغربی الحاد صدیوں کے فکری ارتقاء، سماجی تجربات اور تہذیبی اقدار کے پس منظر میں پروان چڑھا۔ مغربی تہذیب اپنی بنیاد میں یہودی و عیسوی تصورِ جہاں (Judeo-Christian Worldview) پر قائم ہے، جس میں بعد ازاں سیکولر تصورات شامل ہوتے گئے۔ اس امتزاج نے یہ صورت پیدا کی کہ مذہب کے منظم پہلوؤں کو فرد کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیا گیا مگر غیر منظم اخلاقیات اور اقدار کو اجتماعی تہذیب کا حصہ رہنے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے معاشروں میں خدا کے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں: کچھ لوگ مذہبی خدا کو مانتے ہیں، کچھ سائنسی خدا کو اور کچھ عقلی خدا (Deism) کو۔ لیکن تہذیبی اقدار کا انکار کوئی نہیں کرتا۔ مغرب میں الحاد تہذیب سے بغاوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک قائم شدہ سماجی نظم کے اندر ابھرا۔ وہاں کے ملحدین اگرچہ منظم مذہب کو دنیاوی معاملات سے غیر متعلق سمجھتے ہیں لیکن اپنی تحقیق، تخلیقی صلاحیتوں اور ایجادات کے ذریعے معاشرے کو کچھ نہ کچھ ضرور فراہم کرتے ہیں۔ ان کی سوچ اکثر اقدار کی اصلاح یا سوال اٹھانے کے دائرے میں رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں کسی حد تک قابلِ قبول بھی ہیں۔
اس کے برعکس مقامی ملحدین کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ یہاں الحاد زیادہ تر ردِعمل اور غصے کا شاخسانہ ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی سطحی آزادی اور مغرب کی اندھی تقلید سے متاثر ہو کر اپنے دین، تہذیب اور اقدار سے بغاوت کرتے ہیں۔ ان کا مقصد نہ تحقیق ہوتا ہے اور نہ اصلاح بلکہ یہ طنز، تضحیک اور تمسخر تک محدود رہتا ہے۔ وہ ہر شے کو رد کرنا پسند کرتے ہیں مگر کسی متبادل (alternative) یا تعمیری سوچ (constructive thought) سے خالی ہوتے ہیں۔ نہ اپنی ذات کے لیے مثبت رخ اختیار کرتے ہیں نہ خاندان یا معاشرے کے لیے کوئی مفید کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ اپنی ہی سوسائٹی میں الگ تھلگ، نامقبول اور غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ یہ شعور نہیں بلکہ محض انا پرستی اور خود فریبی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی مقامی ملحد ذاتی تعلقات میں چند افراد کے لیے کسی حد تک مفید ثابت ہو مگر اس بنیاد پر عمومی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے اُسے اجتماعی سطح پر "باشعور” قرار دینا علمی اور فکری طور پر درست نہیں۔ اسی طرح مغربی ملحدین کے سماجی و تخلیقی کردار کو بنیاد بنا کر مقامی ملحدین پر بھی وہی فیصلہ صادر کرنا ایک سنگین مغالطہ ہے۔ دونوں کے فکری پس منظر، سماجی سیاق و سباق اور عملی کردار یکسر مختلف ہیں؛ اس لیے انہیں ایک ہی پیمانے سے پرکھنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ حقیقت کے برعکس بھی ہے۔
آخرکار سوال یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو اپنے خالق کا منکر ہو، مذہب اور تہذیب کو طنز و تمسخر کا نشانہ بنائے، خاندان اور معاشرے کے لیے کوئی تعمیری کردار ادا نہ کرے اور بالآخر اپنی ہی ذات کے لیے بھی وبالِ جان بن جائےکیا اسے واقعی باشعور کہا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ شعور نہیں بلکہ ضد، انا پرستی، خود فریبی اور گمراہی ہے۔حقیقی شعوروہ ہے جو انسان کو اس کے خالق سے جوڑ دے، اس کی عقل کو اخلاص، خیر اور عدل کے تابع کرے اور اسے اپنی ذات، خاندان اور معاشرے کے لیے باعثِ رحمت اور نافع بنا دے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر انسان کا شعور پرکھا جانا چاہیے۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو مقامی ملحدین شعور کے نہیں بلکہ بے شعوری کے نمائندہ ہیں ،خواہ وہ اپنے وطن کی سرزمین پر ہوں یا مغرب کی فضا میں۔