تحریر : ڈاکٹر عادل سیماب
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی پر جاری مباحثے میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا معاشی ترقی (Economic Growth) ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں مددگار ہے یا اس کا باعث؟ بدقسمتی سے اس حوالے سے سیاست دانوں، ذرائع ابلاغ اور بعض ماہرینِ معیشت کی طرف سے کئی گمراہ کن دعوے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو عام فہم مثالوں کے ساتھ سمجھا جائے۔
معاشی ترقی کیا ہے؟
سادہ لفظوں میں، جب کسی ملک میں زیادہ چیزیں بنیں اور زیادہ لوگ وہ چیزیں خریدیں تو کہا جاتا ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ لیکن یہ ترقی ہمیشہ خوشحالی کا دوسرا نام نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر:
اگر ایک شخص کے پاس ایک موبائل فون ہے تو یہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ لیکن جب وہ ہر سال نیا ماڈل خریدتا ہے، پرانا فون ضائع ہوتا ہے، اور نئے فون کی تیاری میں زمین سے زیادہ دھاتیں، زیادہ بجلی اور زیادہ مزدوری استعمال ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ کاربن کا اخراج بڑھتا ہے اور ماحول پر دباؤ بڑھتا ہے۔
اسی طرح کپڑوں کو دیکھ لیں۔ ایک انسان کو چند جوڑوں سے روزمرہ کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ لیکن جب ہم فیشن کی دوڑ میں ہر موسم درجنوں نئے کپڑے خریدتے ہیں تو یہ صرف جیب پر ہی نہیں، ماحول پر بھی بوجھ ڈالتا ہے، کیونکہ کپڑوں کی صنعت پانی، بجلی اور کیمیکلز کا سب سے بڑا صارف ہے۔
پیداوار اور توانائی کا تعلق
یہ تعلق سمجھنے کے لیے ایک اور سادہ مثال:
ایک پنکھا بجلی خرچ کرتا ہے، دو پنکھے دگنی بجلی استعمال کریں گے۔ چاہے وہ پنکھے بجلی بچانے والے کیوں نہ ہوں، پھر بھی دو پنکھے ایک سے زیادہ بجلی لیں گے۔
یہی اصول ریفریجریٹر، موٹر سائیکل، کار، موبائل فون یا کسی بھی دوسری چیز پر لاگو ہوتا ہے۔ یعنی جتنی زیادہ پیداوار اور خریداری ہوگی، اتنی ہی زیادہ توانائی استعمال ہوگی اور اتنی ہی زیادہ آلودگی پیدا ہوگی۔
GDP اور خوشحالی کا مغالطہ
ہمارے ہاں یہ عام سوچ ہے کہ جتنا زیادہ سامان پیدا ہوگا، لوگ اتنے ہی خوشحال ہوں گے۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟
اگر ایک گھر میں دو جوڑے جوتے ہیں تو یہ ضرورت پوری کر دیتے ہیں۔ لیکن جب وہی گھر دس جوڑے جوتے خریدے، تو کیا واقعی خوشی دس گنا بڑھ گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ ضرورت پوری ہونے کے بعد چیزوں کی زیادتی صرف دکھاوے یا وقتی تسکین کا باعث بنتی ہے، اصل خوشحالی نہیں۔
متبادل راستے: پوسٹ گروتھ اور ڈِی گروتھ
دنیا میں اب ایسے نئے تصورات پر بات ہو رہی ہے جنہیں ’’پوسٹ گروتھ‘‘ یا ’’ڈِی گروتھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم اندھی دوڑ میں ہر سال زیادہ سے زیادہ سامان بنانے اور خریدنے کو خوشحالی نہ سمجھیں بلکہ اصل توجہ ان چیزوں پر دیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں اور ماحول کو محفوظ رکھیں۔
مثال کے طور پر:
کار کا بار بار نیا ماڈل خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ عوامی ٹرانسپورٹ، سائیکلنگ اور واکنگ کو فروغ دیا جائے۔
گوشت پر مبنی خوراک کے بجائے سبزیوں اور دالوں کو ترجیح دی جائے جو صحت مند بھی ہیں اور ماحول پر کم بوجھ ڈالتی ہیں۔
کپڑوں اور الیکٹرانکس میں ایسے پروڈکٹس بنائے جائیں جو زیادہ عرصہ چل سکیں تاکہ بار بار نیا خریدنے کی ضرورت نہ پڑے۔
سماجی انصاف اور حقیقی خوشحالی
اصل خوشحالی اس وقت آئے گی جب:
ہر شہری کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولت ملے۔
روزگار محفوظ ہو اور تنخواہیں منصفانہ ہوں۔
رہائش، پانی اور بجلی جیسے بنیادی حقوق سب کو حاصل ہوں۔
یہ سب چیزیں اس بات پر منحصر نہیں کہ معیشت کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، بلکہ اس پر کہ وسائل کس طرح بانٹے جا رہے ہیں اور ترجیحات کیا ہیں۔
زیادہ پیداوار اور زیادہ خریداری ہمیشہ زیادہ خوشی نہیں دیتی بلکہ اکثر ماحول اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک متوازن راستہ اختیار کریں—جہاں کفایت شعاری، انصاف اور ماحولیاتی تحفظ ہماری ترجیحات ہوں۔ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں اور خوشحالی کو صرف GDP کے بجائے انسانی معیارِ زندگی اور ماحولیاتی توازن سے جانچیں۔