تحریر: زعفران چیچی
اکثر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب ایک شخص کی تعلیم واجبی ہو، تربیت بھی عام سی ہو اور ماحول بھی محدود ہو تو کیا وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکتا ہے؟ کیا وہ غربت اور محرومی کے دائرے کو توڑ کر ایک بہتر مقام حاصل کر سکتا ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دیہاڑی دار سوچ سے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتی۔ یہ سوچ صرف آج کی روٹی تک محدود رہتی ہے اور کل کے بارے میں سوچنے کی جرات نہیں دیتی۔ حالانکہ کامیاب لوگ وہی ہیں جو لمحۂ موجود سے آگے دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو بدلنے کا عزم کرتے ہیں۔
اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بڑے بڑے نام انہی عام لوگوں میں سے نکلے ہیں۔ ایدھی صاحب ایک عام خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے دوسروں کی خدمت کو اپنا مقصد بنایا اور پوری دنیا کے سامنے مثال بن گئے۔ اسی طرح پاکستان کے کئی چھوٹے کاروباری حضرات نے ریڑھی یا چھوٹی دکان سے آغاز کیا اور آج وہ کئی لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کا آغاز بڑے وسائل سے نہیں، بلکہ بڑی سوچ سے ہوا۔
کامیابی کے لیے سب سے پہلے انسان کو اپنی سوچ بدلنی پڑتی ہے۔ اگر ایک عام مزدور یہ مان لے کہ وہ صرف اپنی دیہاڑی تک محدود ہے تو وہ کبھی آگے نہیں بڑھے گا۔ لیکن اگر وہ یہ سوچے کہ "میں کچھ اور کر سکتا ہوں، مجھے اپنی زندگی بہتر بنانی ہے” تو یہی سوچ اس کے اندر نئی توانائی پیدا کرتی ہے۔
دوسرا قدم چھوٹے مگر پکے اقدامات کا ہے۔ کامیابی ایک دن میں نہیں ملتی۔ کوئی بھی عام آدمی اگر روز تھوڑا سا وقت ہنر سیکھنے میں لگائے، کوئی نئی مہارت حاصل کرے یا اپنی عادتوں میں بہتری لائے تو یہ چھوٹے قدم مستقبل میں بڑے ثمرات دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موچی اگر صرف جوتے مرمت کرنے پر قانع نہ رہے اور آہستہ آہستہ نئی ڈیزائننگ سیکھ لے تو وہ ایک دن اپنی برانڈ بنا سکتا ہے۔
تیسرا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ماحول کو رکاوٹ نہ سمجھا جائے۔ کئی کامیاب لوگ پسماندہ بستیوں سے نکلے اور اپنی محنت سے مقام بنایا۔ اصل طاقت ماحول میں نہیں بلکہ انسان کے حوصلے میں ہے۔ اگر ارادہ پکا ہو تو ماحول کی سختیاں انسان کو مزید مضبوط بنا دیتی ہیں۔
آخر میں، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ عام آدمی کی سب سے بڑی دولت اس کی محنت ہے۔ اگر وہ مستقل مزاج رہے، ہمت نہ ہارے اور اپنی سوچ کو بڑا رکھے تو حالات خود بخود اس کے حق میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ دنیا ان لوگوں کو جھک کر سلام کرتی ہے جو مشکلات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ عام آدمی بھی اپنی زندگی بدل سکتا ہے، اگر وہ اپنے اندر یہ عزم پیدا کر لے کہ وہ اپنی محنت اور ہمت کے بل بوتے پر کل کو آج سے بہتر ضرور بنائے گا۔