Skip to content

پاکستان کے دریا،رحمت یا زحمت؟ پانی اور انسانی تہذیب کا رشتہ

شیئر

شیئر

تحریر : شیر افضل گوجر

انسانی تاریخ اور تہذیب اگر کھرا تلاش کرنا ہو تو وہ دریا یا پانی کے کسی ذخیرے کے آس پاس ہی ملے گا،سائنس کی زبان میں بات کی جائے تو پانی انسان کی محض بائیولوجیکل ضرورت ہی نہیں بلکہ تہذیبی بنیاد بھی ہے۔انتھرا پالوجسٹ اس تاریخی حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسانی تمدن کی بنیاد دریاؤں کے کناروں پر رکھی گئی ،میسوپوٹیمیا,دجلہ و فرات کے کنارے پھلا پھولا، مصری تہذیب نیل کے کنارے پروان چڑھی، گندھارا تہذیب کی عظمت کا سہرا دریائے سندھ کو جاتا۔ یہی حقیقت آج پاکستان کے لیے بھی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے سب سے قیمتی سرمائے پانی کو صرف ایک مادی وسیلہ سمجھا، اسے نہ فلسفے کی گہرائی سے دیکھا، نہ پالیسی کی حکمت سے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پانی ہمارے لیے فطرت کے تحفہ کے بجائے تباہی کا استعارہ بن گیا ہے۔

پاکستان کے پاس ایک ایسا ہائیڈرو جیولوجیکل معجزہ ہے جو دنیا میں کم ہی ریاستوں کو نصیب ہوا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا ہمارے زیرِ زمین پانی کے ایسے ذخائر کو جنم دیتے ہیں جنہیں ہم آج بورنگ اورٹیوب ویلوں کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس اہم ذخیرے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں؟ یا اس فطری اثاثے کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے گے جو سلوک ہم نے اپنی زمین، اپنے جنگلات, اپنی ہوا اور دیگر فطری اثاثوں کے ساتھ کیا ہے؟

انگریزوں کے دور میں جب نہری نظام متعارف ہوا تو اس کے مقاصد زیادہ تر زرعی پیداوار اور کالونیل معیشت کے استحکام تھے۔ لیکن اس کے ایک شائد غیر ارادی نتیجے نے پاکستان کو دنیا کے سب سے بڑے زیرِ زمین آبی ذخائر میں شامل کر دیا۔ دریاؤں کے بہاؤ اور نہروں کی رِساؤ نے زمین کے نیچے پانی کے سمندر آباد کر رکھے ہیں۔

آج پاکستان کی 70 فیصد آبپاشی اور بڑے شہروں کی پینے کی ضروریات انہی ذخائر سے پوری ہو رہی ہیں۔ زرعی و نہری زمین کراچی کی ہو ،خیبر پختونخوا کی ،سندھ یا پنجاب کی، جہاں کبھی نہری نظام موجود تھا وہاں زمین کی سطح پر قائم نظام شاہد ہماری غفلت سے ناکارہ ہوگیا مگر زمین کے اندرہر جگہ ایک خاموش مگر طاقتور نظام موجود ہے جس پر ریسرچ کی ضرورت ہے،یا بات ذہن نشین رہے کہ یہ فطرت کی اپنی کچھ حدود ہوتی ہیں قدرت کے اسباب وافر ضرور ہوتے ہیں مگر لامحدود نہیں ہوتے جس کا اپنا ایک فلسفہ ہے ،قدرت وسائل عطا ضرور کرتی ہے مگر حساب کے ساتھ، انسانی کے تہذیبی سفر میں مسائل لامحدود اور وسائل ہمیشہ محدود رہے ،شائد اس لیے کہ ہم اس کا منظم اور پائیدار استعمال کر سکیں اور فطرت کا توازن بھی قائم رہے۔

پانی کی اہمیت۔

پانی کو صرف ایک مائع سمجھنا انسانی فکری کم مائیگی ہے، پانی وجود ہے، وہ وجود جس کے بغیر انسانی جسم کی ہر حرکت، زمین کے اپر موجود ہر نباتات کا سبز پن اور کائنات کے ارتقاء کا ہر لمحہ ادھورا ہے۔ فلسفی اسپینوزا کہتا ہے کہ قدرت کا ہر عنصر خدا کی صفت ہے ،تو کیا پانی خدا کے فیضان کی سب سے واضع جھلک نہیں؟

اگر ہم پانی کو صرف ایک تکنیکی وسیلہ سمجھیں گے تو ہم اس کی روح کھو دیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی کی حفاظت دراصل اپنی تہذیب، اپنی نسلوں اور اپنی زمین کی حفاظت ہے۔

ریور بینک فلٹریشن ،جدید سائنس اور قدیم حکمت

دنیا کے کئی ممالک نے دریا کے کناروں پر کنویں کھود کر ریور بینک فلٹریشن کا نظام اپنایا ہے۔ اس میں دریا کا پانی زمین سے گزرتا ہے، فلٹر ہوتا ہے، اور قدرتی طور پر صاف ہو کر پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔

یہ نظام ہمیں ایک فلسفیانہ پیغام بھی دیتا ہے صاف پانی ہمیشہ دھیرے دھیرے ملتا ہے، شور سے نہیں بلکہ صبر سے اگر ہم لاہور، پشاور اور کراچی جیسے شہروں کے کنارے یہ نظام متعارف کروا لیں تو نہ صرف شہری آبی بحران کم ہوگا بلکہ زیرِ زمین پانی پر دباؤ بھی گھٹے گا۔ یہ وہ حل ہے جس میں سائنس اور فطرت ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔

کیا ڈیمز سیلاب روک سکتے ہیں؟

پاکستان میں ہر سیلاب کے بعد ایک نعرہ لگتا ہے: "ڈیم بناؤ، سیلاب روکو”۔ لیکن فلسفیانہ نقطۂ نظر سے یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کیا فطرت کو دیواروں میں قید کیا جا سکتا ہے؟

ڈیم بجلی پیدا کرنے اور نہری پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کارآمد ہیں، لیکن یہ کبھی بھی فطرت کے طوفانی بہاؤ کو مکمل طور پر قابو نہیں کر سکتے۔ 2010، 2022 اور اب 2025 کے سیلاب نے یہ ثابت کر دیا کہ بڑے ڈیم بھی قدرت کے سامنے محدود ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ سیلاب کو روکا نہیں جا سکتا، صرف اس کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیں ایک اور سبق سکھاتا ہے کہ فطرت کے ساتھ لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھو۔


پاکستان کا ہائیڈرو جیولوجیکل معجزہ اور ہماری غفلت

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے زیرِ زمین پانی کو صرف "ایمرجنسی سہولت” سمجھا، مگر اسے کبھی پائیدار حکمت عملی کے طور پر نہیں اپنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ گھر گھر بورنگ اور ٹیوب ویلوں کا بے تحاشا استعمال پانی کی سطح کو مسلسل گرا رہا ہے۔ زمین کے اندر موجود نمکیات بڑھ رہے ہیں، آلودگی پھیل رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی اس سب کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر یہ معجزہ ختم ہوگیا تو ہماری معیشت، ہماری زراعت، حتیٰ کہ ہماری زندگی کا ہر پہلو خشک ہو جائے گا۔

پانی اور تہذیب کا مستقبل

پانی کی کمی محض ایک تکنیکی بحران نہیں، یہ ایک تہذیبی بحران ہے۔ اگر آنے والے برسوں میں پاکستان کے شہروں میں پانی ناپید ہو گیا تو کیا ہم اپنی نسلوں کو یہ جواب دے سکیں گے کہ ہم نے ان کے لیے زمین کی گہرائیوں میں چھپے سمندروں کو کیوں ضائع کر دیا؟

یہ سوال صرف سائنسدانوں کے لیے نہیں بلکہ فلسفیوں، شاعروں اور پالیسی سازوں کے لیے بھی ہے۔ کیونکہ پانی صرف زندگی نہیں، یہ معنی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان اور فطرت کے درمیان رشتہ کس قدر نازک اور مقدس ہے۔

پائیدار حل اور مستقبل کی سمت

ریور بینک فلٹریشن کا فروغ
بڑے شہروں میں فوری طور پر یہ نظام متعارف کروایا جائے۔
زیرِ زمین پانی کا انتظام ٹیوب ویلوں پر سخت قوانین، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے۔
ڈیمز کی حقیقت پسندانہ پالیسی
سیلاب روکنے کے بجائے توانائی اور آبپاشی کے لیے۔
فلڈ پلین مینجمنٹ
کچے کے علاقوں میں آبادی سے گریز اور انتباہی نظام کا قیام۔
عوامی شعور پانی کو محض "استعمالی وسیلہ” کے بجائے "وجودی سرمائے” کے طور پر متعارف کروانا۔

پاکستان کے دریاؤں کے نیچے بہنے والے یہ آبی سمندر ہمیں ایک سبق دیتے ہیں:

قدرت عطا کرتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہم اس کی قدر اور انصاف کریں۔
فطرت کے اصولوں سے چھیڑ چھاڑ یا پانی کی بے حرمتی دراصل اپنی بقا سے غداری ہے۔
فطرت کی روانی کو سمجھنے والا معاشرہ ہی پائیدار ترقی حاصل کر سکتا ہے۔

اگر ہم نے اپنی پالیسیوں اور رویوں میں تبدیلی نہ کی تو آنے والی نسلیں ہمیں اسی طرح یاد کریں گی جیسے ہم آج ان قدیم تہذیبوں کو یاد کرتے ہیں جو اپنی زمین کے وسائل کے ساتھ بے حسی برتنے کے باعث فنا ہو گئیں لیکن اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا تو پاکستان واقعی دنیا کا ایک ایسا خطہ بن سکتا ہے جہاں پانی کا یہ "ہائیڈرو جیولوجیکل معجزہ "زمین پر موجود مخلوق کے لیے زحمت کے بجائے ایک رحمت ثابت ہو سکتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں