Skip to content

مصنوعی ذہانت اور صحافت: بیک اینڈ سے فرنٹ پیج تک کا سفر

شیئر

شیئر

تحریر:شیرافضل گوجر

انسانی تاریخ کے ہر دور میں معلومات اور خبر کی اہمیت ناقابلِ تردید رہی ہے۔ کبھی کہانی گو قصے سناتے تھے، یہ سلسلہ اخبارات اور رسائل کی صورت میں آگے بڑھا ، پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن آئے، اور آج ڈیجیٹل اسکرینوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ایک نئی ٹیکنالوجی نے صحافت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے: مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence – AI)۔

“FT Strategies” اور “Google News Initiative” کی مشترکہ رپورٹ "Taking AI from the Backend to the Front Page "
دراصل اس سوال کا جواب ڈھونڈتی ہے کہ صحافت میں AI کا کردار محض پس پردہ تکنیکی کاموں تک محدود رہے یا اسے براہِ راست قاری کے تجربے کا حصہ بنایا جائے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2024 میں کئی نیوز رومز نے پہلے اندرونی ورک فلو (جیسے ہیڈ لائن جنریشن، میٹا ڈیٹا ٹیگنگ، اور سمری سازی) پر AI آزمایا، لیکن جلد ہی توجہ قارئین کے ساتھ براہِ راست مکالمہ قائم کرنے پر منتقل ہو گئی۔

بیک اینڈ سے فرنٹ اینڈ تک کا سفر

پہلے مرحلے میں AI محض ایک مددگار اوزار تھا جو ایڈیٹر کا وقت بچاتا تھا۔ مگر اب یہ خود ایک “خبر سنانے والا ایجنٹ” بنتا جا رہا ہے۔ مصر کا اخبار المصری الیوم اپنی تین ملین خبروں کے آرکائیو کو چیٹ بوٹ کے ذریعے قاری تک پہنچاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کا ڈیلی میورک کسٹمر سپورٹ کے لیے AI ایجنٹ استعمال کرتا ہے۔ یونان کا پروتو تھیما قاری کو براہِ راست سوال کرنے کی سہولت دیتا ہے، اور جرمنی کا روہر ناخریختن مقامی خبروں کے لیے چیٹ بوٹ لانچ کرتا ہے۔ یہ سب مثالیں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہیں: خبر اب صرف لکھی نہیں جاتی بلکہ قاری سے بات بھی کرتی ہے۔

مواقع اور خدشات

یہ تبدیلی پرکشش ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

معلومات تک رسائی میں آسانی:
اب قاری صرف “تلاش” نہیں کرے گا بلکہ سیدھا سوال کرے گا: “گزشتہ سال بجلی کی قیمتوں میں کیا تبدیلی ہوئی؟” اور AI پر مبنی چیٹ بوٹ فوراً مخصوص اور سیاق و سباق کے ساتھ جواب دے گا۔

ذاتی نوعیت کا مواد (Personalisation):
قارئین چاہتے ہیں کہ خبر ان کے دلچسپی کے مطابق ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ذاتی نوعیت خبر کو “معروضیت” سے دور کر دے گی؟

ادارتی نگرانی اور اعتماد:
رپورٹ کے مطابق کئی اداروں نے جان بوجھ کر “رائے پر مبنی مواد” کو ڈیٹابیس سے نکال دیا تاکہ چیٹ بوٹ غیر جانبدار جواب دے۔ لیکن کیا عام قاری کو یہ فرق سمجھ میں آ پائے گا کہ کہاں AI ہے اور کہاں صحافی؟

ٹیکنالوجی پر انحصار:
اگر خبر سنانے کا انحصار ڈیٹا بیس، الگورتھم اور سرورز پر ہے تو اس کا کنٹرول کہاں ہوگا؟ ادارے کے پاس یا ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس؟ یہ سوال مستقبل میں میڈیا کی خودمختاری کے لیے نہایت اہم ہے۔

المصری الیوم نے عربی میں چیٹ بوٹ بنا کر ایک بڑی رکاوٹ توڑ دی، کیونکہ زبان اور UI دونوں اہم ہیں۔

ڈیلی میورک کو یہ احساس ہوا کہ اگر زیادہ تر قارئین ای میل پر سوال بھیجتے ہیں تو ویب سائٹ کا چیٹ بوٹ ان کا مسئلہ حل نہیں کرے گا۔ یعنی ٹیکنالوجی کو ہمیشہ قاری کی عادتوں کے مطابق ڈھلنا ہوگا۔

روہر ناخریختن نے 91 فیصد درست جوابات دیے، لیکن ساتھ ہی “ڈسکلیمر” بھی لگایا کہ یہ AI ہے تاکہ غلط جواب کی صورت میں ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو۔

پروتو تھیما نے ابتدائی طور پر صرف انگریزی آرکائیو پر ٹیسٹ کیا، پھر یونانی زبان شامل کی۔ یہ بتاتا ہے کہ “مرحلہ وار تجربہ” بہتر حکمتِ عملی ہے۔

سماجی و صحافتی پہلو

یہ صرف ٹیکنالوجی کی کہانی نہیں ہے، بلکہ ایک سماجی تبدیلی بھی ہے۔ جب قاری براہِ راست چیٹ بوٹ سے بات کرتا ہے تو اس کی توقعات بھی بدلتی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ جواب فوری، ذاتی اور مستند ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اعتماد ٹوٹتا ہے، اور خبر کا مقصد ہی ضائع ہو جاتا ہے۔

یہاں ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ قارئین کو “صرف وہی خبر” دکھائی جائے جو ان کی دلچسپی کی ہو۔ اس طرح صحافت کا وہ بنیادی فریضہ — یعنی “عوام کو اجتماعی طور پر متاثر کرنے والے مسائل سے آگاہ کرنا” — پسِ منظر میں جا سکتا ہے۔ کیا ایک شہری صرف اپنی دلچسپی کی خبروں پر زندہ رہ سکتا ہے؟ یا اسے سماج کی بڑی تصویر بھی دیکھنی چاہیے؟

رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ AI کو اندھا دھند اپنانے کے بجائے صحافتی اقدار اور ادارتی نگرانی کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی صرف تب مفید ہے جب وہ اعتماد کو بڑھائے، نہ کہ کم کرے۔

خبر رساں ادارے کو چاہیے کہ وہ قاری کو صاف بتائے کہ کہاں AI ہے اور کہاں انسانی صحافی۔

ادارتی ٹیم اور ٹیک ٹیم کا قریبی تعاون ضروری ہے تاکہ جواب نہ صرف درست ہو بلکہ ادارے کی زبان اور وقار کے مطابق بھی ہو۔

کامیابی کا پیمانہ صرف “کلک” یا “سیشن ٹائم” نہیں بلکہ “اعتماد” ہونا چاہیے۔

اب یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت بن کر سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت صحافت کے لیے ایک بڑا موقع بھی ہے اور ایک بڑا چیلنج بھی۔ یہ ٹیکنالوجی خبر کو زیادہ قابلِ رسائی، ذاتی نوعیت کی اور موثر بنا سکتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی گئی تو یہی ٹیکنالوجی صحافت کو “یقین” اور “اجتماعی آگاہی” سے محروم بھی کر سکتی ہے۔

لہٰذا اصل سوال یہ نہیں کہ “AI سے کیا کیا جا سکتا ہے؟” بلکہ یہ ہے کہ “AI کے ذریعے ہم خبر اور قاری کے تعلق کو کس طرح مزید بامعنی اور معتبر بنا سکتے ہیں؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں