Skip to content

موسمیاتی تبدیلی: ایک عالمی بحران اور ہماری ذمہ داری

شیئر

شیئر

تحریر:ڈاکٹر عادل سیماب۔

دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی بحران انسانیت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے اور اسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بحران سے نمٹنے کے لیے جو تجاویز سامنے آ رہی ہیں وہ سب ایک جیسی مؤثر اور محفوظ نہیں ہیں۔ سب سے سیدھا اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ ہم ان گیسوں کے اخراج کو کم کریں اور بالآخر ختم کر دیں جو زمین کے درجہ حرارت کو بڑھاتی ہیں۔ جب اخراج بند ہو جائے گا تو زمین کا درجہ حرارت بڑھنا بھی رک جائے گا۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کیا جائے۔ اس کے لیے یا تو درخت لگائے جا سکتے ہیں اور ماحولیاتی نظام کو بحال کیا جا سکتا ہے تاکہ فطری عمل کاربن کو جذب کرے۔ یہ اہم ہے مگر زمین کی اتنی زیادہ مقدار کاشت کاری اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے بغیر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔

مزید پیچیدہ تجاویز میں ایسی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو فضا سے کاربن کو فلٹر کر کے زمین کے اندر محفوظ کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ لیکن یہ ٹیکنالوجیز نہ صرف ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں بلکہ ان کے اثرات خوراک کی پیداوار، پانی اور حیاتیاتی تنوع پر بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیز پر اندھا اعتماد کر کے فوری طور پر اخراج کم کرنے کی کوشش کو مؤخر نہ کر دیں۔

کچھ ماہرین ایک اور متنازعہ تجویز پیش کرتے ہیں جسے جیو انجینئرنگ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت زمین کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مصنوعی اقدامات کیے جاتے ہیں، مثلاً خلا میں بڑے آئینے نصب کرنا تاکہ سورج کی روشنی کم زمین تک پہنچے یا فضا میں کیمیکل شامل کر کے مصنوعی بادل بنانا۔ یہ نہایت خطرناک تجویز ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔

ماہرین کے مطابق سب سے محفوظ اور مؤثر راستہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو تیزی سے کم کیا جائے۔ 2030 تک عالمی سطح پر اخراج کو نصف اور 2050 تک مکمل طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کون سا ملک کتنا کم کرے؟

ہر ملک کے حالات مختلف ہیں۔ کچھ ممالک فی کس زیادہ اخراج کرتے ہیں جبکہ کچھ کم۔ اسی لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ ترقی یافتہ اور زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک اپنی ذمہ داری زیادہ اٹھائیں۔ لیکن بدقسمتی سے امیر ممالک اپنی اصل ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ برعکس اس کے، کئی ترقی پذیر ممالک جیسے کوسٹاریکا اپنے محدود وسائل کے باوجود عالمی اہداف پر پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان اور خاص طور پر ہزارہ ڈویژن جیسے خطے جہاں قدرتی حسن، جنگلات اور برف پوش پہاڑ موجود ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات کا سامنا کرتے ہیں۔ گلیشیئر پگھلنے سے دریاؤں کے بہاؤ پر اثر پڑتا ہے، زراعت متاثر ہوتی ہے اور شدید بارشیں و سیلاب لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہ معاملہ محض سائنسی بحث نہیں بلکہ زندگی اور بقا کا سوال ہے۔

بہت سے ممالک یہ کہہ کر اپنا فرض پورا سمجھتے ہیں کہ اگر آج وہ اخراج کم نہیں کریں گے تو مستقبل میں کہیں اور منصوبے بنا کر اس کا ازالہ کریں گے۔ اسے "آف سیٹنگ” کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ہم خود کو دھوکہ دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ منصوبے اکثر اپنے وعدے پورے نہیں کرتے بلکہ مقامی برادریوں کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔

دنیا کو چاہیے کہ تیزی سے اخراج کم کرے، خصوصاً وہ ممالک جو سب سے زیادہ آلودگی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ہمیں بھی اقدامات کرنے ہوں گے:
1۔ درختوں کی شجرکاری اور جنگلات کا تحفظ
2۔ فضول سفر اور توانائی کے ضیاع کو کم کرنا
3۔ پانی کے بہتر استعمال کے لیے منصوبہ بندی
4۔ قابلِ تجدید توانائی (شمسی اور پن بجلی) کو فروغ دینا
ہزارہ ڈویژن کے لوگ، جو قدرتی حسن اور وسائل سے مالامال ہیں، اس تبدیلی کا عملی نمونہ بن سکتے ہیں۔ مقامی جنگلات کا تحفظ، سیاحت کو ماحول دوست بنانا، اور پن بجلی جیسے صاف ذرائع توانائی کو فروغ دینا، نہ صرف علاقے کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے مثال بن سکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جسے صرف بین الاقوامی سطح پر معاہدوں سے نہیں حل کیا جا سکتا، بلکہ ہر خطے، ہر ملک اور ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں شدید مشکلات میں گرفتار ہوں گی۔ پاکستان اور خصوصاً ہزارہ ڈویژن کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنی فطری خوبصورتی کی حفاظت کرے بلکہ ماحولیاتی انصاف کی عالمی تحریک کا حصہ بھی بنے۔


اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں