Skip to content

کیا سکولوں اور کالجوں کی نجکاری/آؤٹ سورسنگ واقعی ناگزیر ہے؟

شیئر

شیئر

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن تعلیمی لحاظ سے اب بھی باقی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ اس کا اندازہ ہم شرح خواندگی سے لگا سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں شرح خواندگی صرف ٪60.6 فیصد ہے جو پورے جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان سے صرف بہتر ہے۔ پاکستان میں 22.6 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، یہ تعداد دنیا میں نائیجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ٪31 فیصد بے روزگار ہیں اسی طرح ہماری پوری آبادی کے ٪51 لوگ بے روزگار ہیں۔ ہر سال ہزاروں طلباء اپنی تعلیم مکمل کر کے مارکیٹ میں آتے ہیں لیکن آگے مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی مطلوبہ کام دستیاب نہیں ہوتا۔ حکومت کے پاس کوئی ایسا پلان نہیں ہے جس سے ان نوجوان گریجویٹس کو موقع مل سکے تاکہ یہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر ملکی معیشت میں اضافہ کر سکیں جو کہ دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت نے کچھ اسکول اور کالجوں کی نجکاری یا آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے حکومت کا جواز یہ ہے کہ وہ اسکول اور کالج جن کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے ان کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے تاکہ معیاری تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔ لیکن یہاں کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ:

کارکردگی کیوں ٹھیک نہیں ہے؟ کیا صرف اساتذہ ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ کیا محکمہ کو اسکول اور کالجوں کے مسائل کے بارے میں پتہ ہے؟ کیا آؤٹ سورس کرنا ہی ایک حل ہے؟ ان سوالات کے جوابات شاید ہر کوئی ڈھونڈ سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں اس وقت ہزاروں گورنمنٹ اسکول اور بڑی تعداد میں کالج ہیں جن میں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں کئی اسکول اور کالج ایسے ہیں جن کو طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ بہت سارے اسکولوں میں اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، نئے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے حکومت ایک سے دو سال لگا رہی ہے جس کی وجہ سے دوسرے اساتذہ پر اضافی بوجھ پڑتا ہے اور اسکول کی کارکردگی خراب ہوتی ہے۔ اسی طرح زیادہ تر گورنمنٹ اسکول اور کالجوں میں طلباء کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن اساتذہ کم ہیں، ذیادہ پرائمری اسکول ایسے ہیں جہاں ایک استاد 6 کلاسوں کو پڑھا رہا ہے، اب اگر یہ صورت حال ہو تو پھر کیسے معیاری تعلیم دی جا سکتی ہے؟ بہت سارے اسکول آج بھی ایسے ہیں جہاں پر اسکول کی عمارت نہیں ہے، یا پھر ایک شیلٹر ہے جہاں پر ساری کلاسیں اکٹھے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں، طلباء کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں/ڈیسک نہیں ہیں آج اکیسویں صدی میں بھی بچے ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں چاہے گرمی ہو یا سردی ہو۔

اسی طرح دیہی علاقوں کے بچے زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بڑی مشکل سے کاپیاں، یونیفارم وغیرہ لاتے ہیں، اور اوپر سے سرکاری کتابیں بھی آدھی کر دی گئی ہیں اور وقت پر بچوں کو نہیں ملتیں تو پھر بچے کیسے معیاری تعلیم حاصل کریں؟ اساتذہ کے گھر سے دور پوسٹنگ، آئے روز نئی پالیسیوں نے استاد کو تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے، ہر آفیسر کی نئی پالیسی ہوتی ہے، جزا و سزا کا کام ختم ہے، کسی بچے کی کارکردگی ٹھیک نہ ہونے پر استاد اس کو فیل نہیں کر سکتا، کیونکہ پالیسی ہے ہر بچے کو پاس کرنا ہے، اس سے دوسرے بچے بھی پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیتے ، وہ یہ سوچتے ہیں کہ ویسے بھی پاس ہو جائیں گے۔ اب بچوں میں انٹرسٹ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ پڑھنے اور نہ پڑھنے والے برابر ہو جائیں گے اب اگر یہ پالیسیاں چلتی رہیں تو کیسے معیاری تعلیم ہو گی؟

بجائے ان مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے حکومت اپنے کندھوں سے بوجھ اتار رہی ہے اور اسکول اور کالجوں کی نجکاری کر رہی ہے، اور سارا الزام اساتذہ پر ڈال رہی ہے، کیا واقعی صرف اساتذہ ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ کیا محکمہ تعلیم میں آفیسرز جن کو اسی لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اسکولوں اور کالجوں کے مسائل کو حل کریں وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا ان کو آؤٹ سورس نہ کیا جائے؟ اگر بات کارکردگی کی ہے تو اتنی مراعات و وسائل لانے کے باوجود بیوروکریسی، ججز، وزراء سے ان کی کارکردگی کیوں نہیں پوچھی جاتی؟

تعلیمی اداروں کی نجکاری کر کے تعلیم کو بھی سرمایہ داروں کے ہاتھوں دے کر غریب عوام کو لوٹا جائے گا، اس مہنگائی میں عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں، ایک ہی وسیلہ ان کے پاس ہے وہ تعلیم ہے، جس سے وہ اپنا سٹیٹس تبدیل کر سکتے ہیں اگر یہ بھی سرمایہ داروں کے ہاتھوں چلی گئی تو پھر کاروبار بن جائے گی جس سے نقصان اس ملک کا ہی ہو گا۔

تعلیمی اداروں کی آؤٹ سورسنگ یا نجکاری کوئی حل نہیں ہے، اگر حکومت واقعی معیاری تعلیم دلوانا چاہتی ہے تو سب کو ملا کر چلیں۔ بہتر حکمت عملی اور لگن سے اگر سارے اسٹیک ہولڈرز مل کر کوشش کریں تو معیاری تعلیم ہر بچے کو ملے گی اور وہ اس ریاست کا ایک اچھا شہری بن کر اس کی خدمت کرے گا۔

وقاص انور مغل

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں