Skip to content

پاکستان میں جنسی اور تولیدی صحت و حقوق۔

شیئر

شیئر

تحریر : شیر افضل گوجر

انسان کی زندگی محض سانسوں کا تسلسل نہیں بلکہ معنی اور اختیار کی تلاش ہے۔ اگر زندگی ایک کتاب ہے تو اس کے سب سے اہم باب وہ ہیں جن میں انسان اپنے جسم، اپنی نسل اور اپنی محبت کے بارے میں کچھ درج کرتا ہے۔ یہی فیصلے دراصل جنسی اور تولیدی صحت و حقوق (SRHR) کا جوہر ہیں۔

پاکستان، جہاں زمین زرخیز ہے مگر ذہنوں پر صدیوں کی روایتوں کی زنجیریں ہیں، وہاں یہ موضوع کسی آہستہ چلتی ہوا کی مانند ہے، جو موجود تو ہے مگر سنائی نہیں دیتی۔ جنسی اور تولیدی صحت پر بات کرنا گویا ایک ایسا آئینہ دکھانا ہے جس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھنے سے کتراتا ہے اور چہرے کے داغ کو صاف کرنے کے بجائے آئینے کو توڑنے کی روایت پر قائم ہے، لیکن آئینے کو توڑ دینے سے چہرہ نہیں بدلتا۔ یہ وہ خاموش حقیقت ہے جو آج ہر پاکستانی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے یہ چاپ خاموش مگر مسلسل ہے۔

موجودہ منظرنامہ: اعداد سے آگے کی حقیقت

اعداد و شمار بظاہر خشک ہوتے ہیں، مگر ان کے پیچھے انسانی المیوں اور خوابوں کی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔

جب کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر پچاس منٹ بعد ایک عورت زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہے، تو یہ محض ایک اعداد کی گنتی نہیں بلکہ ایک انسان کی اجڑتی زندگی، ایک ماں کا ناتمام لوری ، ایک بچے کی خاموش چیخ ہے، اور ایک گھر کے اجڑنے کی کہانی ہے۔

جب کہا جاتا ہے کہ لاکھوں خواتین مانع حمل طریقے چاہنے کے باوجود حاصل نہیں کر سکتیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں دیکھتی ہیں شاید والدین کے،شوہر کے، سسرال کے، یا پھر سماج کے۔ہمارے ہاں جب کوئی لڑکی بیاہ کر سسرال آتی ہے تو اس نے خاوند اور سسرال کے علاوہ اپنے ننھیال اور ددھیال کی عزت کی دیکھ بھال کا زمہ بھی اٹھانا ہوتا ہے اس کی معمولی سے لغزش خاندان کی عزت کے لیے مسلہ بن سکتی ہے۔

جب کہا جاتا ہے کہ ہر تین میں سے صرف ایک عورت اپنی تولیدی صحت پر خود فیصلہ کر سکتی ہے، تو یہ دراصل بتاتا ہے کہ دو عورتیں اب بھی اپنے ہی جسم کے اندر "اجنبی” کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔

یہ اعداد ہمیں جھنجھوڑتے ہیں کہ صحت کا مسئلہ دراصل اختیار کا مسئلہ ہے، اور اختیار کا مسئلہ دراصل آزادی اور وقار کا مسئلہ ہے۔

بنیادی رکاوٹیں: خاموشی کی دیواریں

فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ رکاوٹیں محض مشکلات نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ہمارے اجتماعی ذہن کی عکاس ہوتی ہیں۔ پاکستان میں SRHR کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی ہیں، وہ دراصل ہماری اجتماعی نفسیات کی تصویر ہیں۔

سماجی و ثقافتی زنجیریں
ہمارے ہاں جنسیت پر گفتگو کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم بچوں کو سائنس پڑھاتے ہیں مگر ان کے اپنے جسم کی سائنس چھپاتے ہیں۔ ہم عورت کو ماں اور بیوی کی حیثیت سے تو پہچانتے ہیں مگر انسان کی حیثیت سے اس کی آواز دبائے رکھتے ہیں۔ یہ وہ خاموشی ہے جو نسلوں کو لاعلمی اور خوف کے اندھیروں میں دھکیلتی ہے۔

تعلیم کا خلا
جامع جنسی تعلیم (Comprehensive Sexuality Education) ہمارے نصاب سے ایسے غائب ہے جیسے اس کی کوئی ضرورت ہی نا ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اپنے سوالوں کے جواب انٹرنیٹ یا نیم حکیموں کے پاس ڈھونڈتے ہیں۔ لاعلمی ہمیشہ خوف کو جنم دیتی ہے، اور خوف ہمیشہ غلامی کو۔

صحت کے نظام کی کمزوریاں
دیہی مراکز صحت ویران ہیں۔ تربیت یافتہ ڈاکٹر اور نرسیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو ہیں بھی، ان کا رویہ اکثر مریض کو مزید زخمی کر دیتا ہے۔ یہ نظام دراصل اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ہم صحت کو حق نہیں بلکہ خیرات سمجھتے ہیں۔

قانون اور اس کی خاموشی
کتابوں میں قوانین ہیں—کم عمری کی شادی پر پابندی، خواتین کے حقوق کی حفاظت، صحت کی فراہمی کے وعدے—مگر زمین پر ان کی کوئی گونج نہیں۔ جیسے قانون ایک دیوار پر لٹکی تصویر ہو: نظر آئے مگر چھوئی نہ جا سکے۔

وجود، اختیار اور خاموشی

جنسی اور تولیدی صحت صرف ایک طبی اصطلاح نہیں، یہ دراصل وجود کے اختیار کی بات ہے۔ فلسفی مابعدالطبیعیات میں کہتے ہیں کہ "انسان وہی ہے جس پر وہ اختیار رکھتا ہے۔” اگر ایک عورت اپنے جسم پر اختیار نہیں رکھتی تو کیا وہ اپنے وجود پر بھی مکمل اختیار رکھ سکتی ہے؟ اگر ایک نوجوان اپنی زندگی کے سب سے بنیادی سوالوں پر بات نہیں کر سکتا تو کیا وہ کبھی آزاد شہری بن سکتا ہے؟

یہ خاموشی دراصل غلامی کی ایک جدید شکل ہے۔ غلامی کی زنجیریں لوہے کی نہیں بلکہ لاعلمی اور شرم کی ہیں۔ اور یہی زنجیریں معاشرے کو اس کی اصل ترقی سے روکے ہوئے ہیں۔

اندھیروں میں امید کی سب سے ننھی کرن بھی روشنی کا اعلان ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے SRHR محض ایک پالیسی ایجنڈا نہیں بلکہ ایک تہذیبی انقلاب ہے۔

ریاست کا کردار
ریاست اگر اپنے شہریوں کو صحت فراہم نہیں کرتی تو وہ اپنے وجود کی بنیاد کھو دیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صحت کو خیرات نہیں بلکہ حق سمجھے، بنیادی مراکز صحت میں وسائل، خواتین ورکرز اور شفاف،متحرک اور جوابدہ نظام قائم کیا جائے۔

جامع جنسی تعلیم
علم کبھی شرمندگی نہیں ہوتا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ بچوں اور نوجوانوں کو ان کے جسم کے بارے میں آگاہی دینا دراصل ان کے احترام اور وقار کا حصہ ہے۔ یہ تعلیم ان کے اندر نہ صرف علم بلکہ اعتماد بھی پیدا کرے گی۔

مردوں اور لڑکوں کی شمولیت
یہ موضوع صرف عورتوں تک محدود نہیں۔ مرد جب تک تبدیلی میں شامل نہیں ہوں گے، مساوات ممکن نہیں۔ ایک باشعور مرد وہی ہے جو اپنی بیوی یا بیٹی کے اپنی زندگی سے متعلق فیصلوں کا احترام کرے۔
این جی اوز اور میڈیا وہ پلیٹ فارم ہیں جو خاموشی کو توڑ سکتے ہیں۔ ڈرامے، مضامین اور مہمات کے ذریعے یہ موضوع معاشرتی گفتگو کا حصہ بن سکتا ہے۔ مکالمہ ہی تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔

در حقیقت زندگی کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی خاموشی ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہتی۔ پاکستان میں SRHR پر طویل خاموشی رہی ہے، مگر اب دروازے پر دستک بڑھ رہی ہے۔ یہ دستک کسی ایک عورت یا نوجوان کی نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی ہے جو کہہ رہی ہے:

"ہم اپنے جسم پر اختیار چاہتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی پر حق چاہتے ہیں۔ ہم لاعلمی سے نکل کر روشنی میں جینا چاہتے ہیں۔”

یہ دستک دراصل ایک خاموش انقلاب کی ہے،ایسا انقلاب جو بغاوت ،بندوق یا احتجاج سے نہیں بلکہ علم، وقار اور اختیار سے جنم لیتا ہے۔

اگر پاکستان اس انقلاب کو سن لے، تو یہ معاشرہ صرف صحت مند ہی نہیں بلکہ باشعور، مساوی اور آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر نہ سنے، تو خاموشی کی یہ دیوار بالآخر اندر سے ٹوٹ جائے گی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں