راشد خان سواتی – وائس پرنسپل گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول بفہ
گورنمنٹ سکولز اور کالجز کو پرائیویٹ کرنے کی صورت میں ہماری 80 فیصد آبادی وہ بنیادی اور ابدی تعلیمی سہولیات سے محروم ہو جائے گی، جن کے لئے نجی اداروں کی بھاری ماہانہ فیسیں برداشت کرنا ناممکن ہے۔
یہ ادارے صرف درس و تدریس کے مراکز نہیں بلکہ ریاست کی سرپرستی میں آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق نئی نسل کی تعمیر، قومی شعور کی آبیاری اور ملک کے لئے افرادی قوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔
خاکم بدہن اگر یہ ادارے پرائیویٹ کمپنیوں یا افراد کے ہاتھوں میں چلے گئے تو کون ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ محب وطن ہوں گے، یا پھر وہ تعصب، قوم پرستی اور گروہی مفادات کے اسیر نہ بن جائیں گے؟ یہ نہایت سنجیدہ قومی مسئلہ ہے، اس لئے ارباب اختیار کو چاہیے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا موازنہ محض نفع بخش سرکاری یا نجی اداروں کے ساتھ نہ کریں۔
علمی اور اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہمیشہ ریاست کی سرپرستی اور سرکار کی معاونت کے ساتھ قوم سازی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ یہ ادارے وژن اور قیادت کے فقدان کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے معاشرے کو ہر میدان میں قابل اور ہنر مند افراد فراہم کرتے ہیں۔
اساتذہ کرام اور تعلیم سے وابستہ اہلِ علم و دانش یہ بجا طور پر کہتے ہیں کہ سرکاری ادارے آج بھی 80 فیصد سے زیادہ آبادی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اس قومی امانت کو نجی اداروں اور افراد کے حوالے کرنا قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25-A
یہ آئینِ پاکستان کا واضح حکم ہے کہ 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر گورنمنٹ سکولز اور کالجز کو نجی ہاتھوں میں دے دیا گیا تو یہ آئینی تقاضہ کیسے پورا ہوگا؟