وحید مراد
پاکستانی اخبارات اور سوشل میڈیا پر ہر سال کیمبرج کے نتائج کے بعد ایک شور برپا ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ امتحانات ہوتے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی کسی نئے "ریکارڈ” کی خبر آتی ہے تو اس میں زیادہ تر پاکستانی طلبہ کا نام شامل ہوتا ہے۔ کوئی بچہ بیس مضامین پاس کر کے ہیرو بن جاتا ہے، کوئی تیس مضامین کے ساتھ دنیا بھر میں شہرت پا لیتا ہے اور حال ہی میں ایک طالبہ نے اٹھاون مضامین پاس کر کے پاکستانی قوم کو "فخر” کا ایک نیا موقع فراہم کر دیا۔ یہ خبریں دیکھ کر بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی بچے دنیا میں سب سے زیادہ ذہین ہیں اور باقی اقوام ان کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں لیکن حقیقت اتنی سادہ نہیں۔
ہماری سوچ پر ایک خاص وہم غالب ہے کہ تعداد ہی سب کچھ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روپے پیسے کی زیادتی ہی اصل طاقت ہے، ڈگریوں اور مضامین کی بھرمار ہی علم ہے اور سرٹیفیکیٹس کا ڈھیر ہی ترقی کی ضمانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی طالب علم اٹھاون پرچے دے دیتا ہے تو اسے ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے اس نے انسانیت کے لئے کوئی نئی دنیا ایجاد کر لی ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ محض امتحانی پرچوں کا بوجھ اٹھا کر، بھاری فیسیں ادا کر کے صرف اچھے گریڈز اور اخباری سرخیاں حاصل کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریکارڈ بنانے والی بچی نے صرف امتحانی فیس ہی ڈیڑھ ملین کے قریب ادا کی۔ سوال یہ ہے کہ اس محنت اور سرمایہ کاری کے بدلے میں حاصل کیا ہوا؟ علم کی گہرائی یا محض کاغذی اسناد اور وقتی شہرت؟
ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی یہی رجحان غالب ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے تعارف دیکھیں تو تحقیقی مقالات کے انبار ملیں گے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ دنیا کے بڑے بڑے مسائل حل کر چکے ہیں مگر جب کوئی عملی مسئلہ سامنے رکھا جائے تو جواب ندارد۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریسرچ پیپرز کی کثرت یا ڈگریوں کا انبار لازمی طور پر علم یا ترقی کی علامت نہیں۔
یہ سب مناظر دراصل مزاحیہ ریکارڈز کی یاد دلاتے ہیں۔ جیسے گنیز بک میں وہ شخص جس نے پچاس برس ناخن نہ کاٹنے کا کارنامہ سرانجام دیا یا وہ جو ایک وقت میں پانچ سو برگر کھا گیا یا وہ خاتون جو اپنے سر پر سو بوتلیں رکھ کر چلنے لگی اور دنیا بھر میں "ہیروئن” کہلائی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب انسانی تہذیب کے لیے کوئی بڑی خدمت ہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔ بالکل اسی طرح ڈھیروں مضامین پاس کرنا بھی وقتی تفریح یا حیرت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن یہ علم یا شعور کی معراج نہیں۔
اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ایسے ریکارڈ بنانے والے طلبہ نے اصل زندگی کے لئے کیا سیکھا؟ کیا وہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ان میں تخلیقی سوچ، لیڈرشپ، ٹیم ورک اور عملی تجربہ موجود ہے یا صرف نصاب رٹنے میں مہارت ہے؟ تاریخ کے بڑے مفکرین اور موجدین نے کبھی درجنوں مضامین پاس کر کے نام پیدا نہیں کیا بلکہ مخصوص اور بامقصد تعلیم کے ذریعے دنیا کو نئے افکار اور ایجادات دی ہیں۔
یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ بے تحاشا مضامین پڑھنا کسی کارنامے کے بجائے عذاب بن جاتا ہے، جو اکثر والدین اور اساتذہ کی غلط ترجیحات کے نتیجے میں ذہین بچوں پر مسلط ہوتا ہے۔ اس دوڑ میں الجھے ذہن نہ صرف اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں بلکہ زندگی کے توازن اور اصل خوشی سے بھی محروم رہتے ہیں۔
اب ذرا مغربی دنیا کو دیکھئے جہاں کیمرج کے یہ امتحانات اصل میں لیے جاتے ہیں۔ وہاں کے طلبہ نہ تو اٹھاون مضامین کی فکر کرتے ہیں نہ گنیز بک میں نام لکھوانے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ پانچ چھ مضامین او لیول میں اور تین چار مضامین اے لیول میں کافی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ زیادہ اہم نہیں کہ گریڈ A آیا یا C، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بچہ عملی زندگی کے لئے کس حد تک تیار ہو رہا ہے۔
اساتذہ اور والدین اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ بچے کو کھیلوں، آرٹ، ڈرامہ، میوزک اور مباحثوں میں حصہ لینے کا موقع ملے۔ کمیونٹی سروس اور رضاکارانہ سرگرمیوں کے ذریعے اسے دوسروں کے ساتھ ربط پیدا کرنے اور خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ پراجیکٹس اور ورکشاپس میں شامل ہو کر تحقیق اور مسائل کے حل کی صلاحیت پیدا کرے۔ ان معاشروں میں اگر بچے کو یہ مواقع نہ ملیں تو والدین فوراً پریشان ہو جاتے ہیں لیکن گریڈ قدرے کم آ جائے تو زیادہ فکر نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اصل کامیابی زندگی ہے، کاغذی نمبرز نہیں۔
پاکستان میں یہ ریکارڈز وقتی طور پر تو خبروں کی زینت بنتے ہیں مگر حقیقی کامیابی اُن قوموں کے پاس ہے جنہوں نے تعلیم کو زندگی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ ترقی کے پیمانے نہ مضامین کی گنتی ہیں، نہ ڈگریوں کا انبار اور نہ ریسرچ پیپرز کے ڈھیر۔ ترقی یہ ہے کہ ہم کتنے مسائل حل کر سکتے ہیں، کتنا نیا علم تخلیق کر سکتے ہیں، کتنا بہتر انسان بن سکتے ہیں اور دوسروں کو کتنا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ یہی وہ پیمانہ ہے جو فرد کو بھی اوپر اٹھاتا ہے اور قوم کو بھی۔
پاکستانی طلبہ میں صلاحیت کی کمی نہیں، کمی صرف درست ترجیحات کی ہے۔ اگر ہم تعلیم کو محض نمبروں اور ریکارڈز کے بجائے زندگی کی تیاری سمجھ لیں اور دکھاوے کے ان میلوں سے نکل کر تخلیق، خدمت اور کردار سازی کو اصل معیار بنائیں تو دنیا میں حقیقی عزت اور ترقی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔