آج جب میں اپنے مریض کو لے کر کنگ عبداللہ ہسپتال پہنچا تو میری سوچ سے بھی زیادہ مایوس کُن منظر سامنے آیا۔ جیسے ہی ایمرجنسی میں داخل ہوا تو وہاں نہ کوئی سٹریچر ملا اور نہ ہی ویل چیئر۔ تقریباً آدھا گھنٹہ تک میں بے یار و مددگار کھڑا رہا۔ ایمرجنسی میں ٹریننگ والوں کے علاوہ ڈپٹی پر ڈاکٹر بھی نہیں تھا۔ بالآخر مجبوری میں میں نے وہ چارپائی استعمال کی جو گھر سے ساتھ لایا تھا۔ سوچئے 120 کلو وزنی مریض کو چارپائی پر اُٹھا کر ایمرجنسی سے اوپی ڈی تک لے جانا کس قدر اذیت ناک مرحلہ تھا۔
اوپی ڈی کے ڈاکٹر نے ایکسرے لکھ کر دیا مگر گھر والی چارپائی ایکسرے روم میں نہیں جا سکتی تھی۔
آخرکار جب ایک گھنٹہ بعد سٹریچر آیا اور ہم مریض کو ایکسرے روم لے گئے تو وہاں ایک اور ناانصافی دیکھنے کو ملی۔ ایک صاحب اپنے "جاننے والوں” کو بار بار ترجیح دے کر اندر بھیجتے رہے۔ میرے سامنے تین مریضوں کو قطار توڑ کر اندر کیا گیا اور ہمیں کہا گیا "رکیں آپ اندر نہیں جا سکتے۔” حالانکہ ہمارا مریض سٹریچر پر تھا اور اس کے جاننے والے نہیں۔
جب ایکسرے مکمل ہوا اور مریض کو واپس ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو انہوں نے کہا مریض کو میڈیکل وارڈ میں داخل کر دیا جائے۔ لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کوئی بیڈ ہی خالی نہیں۔ پھر ڈاکٹر نے سے گزارش کی آئی سی یو وارڈ کا لکھ دیں جب آئی سی یو وارڈ گئے وہاں بھی بیڈ نہ مل سکا۔ آئی سی یو میں ایک میڈم کو کہا کچھ ایڈجسمنٹ کردیں مریض سیریس ہے کومہ میں ہے۔ ڈاکٹر نے لاپرواہی کے انداز میں کہا: "کیا کروں۔ بیڈ نہیں ہے تو واش روم میں رکھوں؟”۔
یہ سب دیکھ کر میرا دل دہل گیا کہ آخر ہمارا نظامِ صحت کس حال پر ہے جہاں ایک مریض کے لیے سٹریچر یا بیڈ تک میسر نہیں۔
یہ واقعہ صرف میرا نہیں بلکہ ہر اس عام شہری کا درد ہے جو ہسپتالوں میں سہولتوں کے بجائے ذلت اور بے بسی کا سامنا کرتا ہے۔
شہری