تحریر: ابو نظام کھوجی
"پولیس اسٹیشن کا سیاہ نظام محرر منشی اور رجسٹر 5-AA کی حقیقت”انصاف کی راہ میں رکاوٹیں تھانہ کلچر اور محرر منشی کا کردار”. "فرض سے غفلت یا طاقت کا کھیل
پولیس اسٹیشن میں رجسٹر اور محرر منشی کی اجارہ داری”تھانہ کلچر کی سچائی: ایف آئی آر سے رجسٹر 5-AA تک”
اس شہر میں مظلوم جب انصاف کے لیے قدم اُٹھاتا ہے تو سب سے پہلے اُسے ظالم ہی کے در پر جانا پڑتا ہے۔ تھانے تک کا یہ سفر محض ایک کہانی نہیں بلکہ آج کے معاشرے کی تلخ تصویر ہے۔ عام شہری جب اپنی فریاد لے کر تھانہ پہنچتا ہے تو روزنامچہ پر بیٹھے محرر، مدمحرر اور منشی حضرات اُس کی درخواست تو سنتے ہیں مگر اُس میں درج جرم کی اصل نوعیت کو کم کرکے ایک سادہ کاغذ پر تحریر کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسے غیر قانونی طور پر رجسٹر "5-اےاے” میں درج کر کے کسی تفتیشی افسر کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی زخمی یا ضرر رسیدہ شخص رپورٹ کرائے تو مجبوراً اس کی انٹری روزنامچہ میں کی جاتی ہے، لیکن اس میں بھی جرم کی سنگینی کو گھٹا کر لکھا جاتا ہے۔ اسی طرزِ عمل کے باعث چوری، ڈکیتی اور دیگر سنگین وارداتیں اکثر محض درخواست کی حد تک محدود کر دی جاتی ہیں، یوں مظلوم کی دادرسی کاغذی کارروائی تک محدود رہتی ہے اور عدالتی انصاف تک رسائی مزید دشوار ہو جاتی ہے۔
ہمارے پولیس نظام میں محرر اور منشی کا کردار بظاہر چھوٹا مگر حقیقت میں نہایت طاقتور ہے۔ یہ وہ روایتی محرر صاحبان ہیں جو ایک تھانہ سے دوسرے تھانہ تک بدلے جاتے رہتے ہیں اور جن پر یہ غیر تحریری حکم مسلط ہوتا ہے کہ "مسائل نہ بناؤ، ایف آئی آر کم درج کرو”۔ کیونکہ جیسے ہی ایف آئی آر درج ہوگی، ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کو ملزمان پکڑنے کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سنگین جرائم کو کاغذی درخواست یا غیر قانونی رجسٹرز تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی محرر اپنے منصب کی اصل ذمہ داری ادا کرے اور حقائق کے مطابق ایف آئی آر درج کرے تو ایس ایچ او اس کو "مسئلہ پیدا کرنے والا” قرار دے کر فوراً تبدیل کروا دیتا ہے۔
تھانہ جاتی نظام میں عوام کو سب سے زیادہ دھوکہ جس طریقے سے دیا جاتا ہے وہ رجسٹر 5-اےاے ہے۔ یہ رجسٹر نہ تو پولیس رولز میں قانونی طور پر تسلیم شدہ ہے اور نہ ہی ضابطہ فوجداری (Cr.P.C.) کے تحت اس کا کوئی وجود ہے، بلکہ یہ محض محرر صاحبان کا بنایا ہوا ایک غیر قانونی حربہ ہے۔ جب کوئی شہری اپنی شکایت لے کر تھانے میں پہنچتا ہے اور اس کا معاملہ قابل دست اندازی پولیس ہوتا ہے، تب بھی ایف آئی آر کے بجائے اسے رجسٹر 5-اےاے میں درج کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف شہری کو یہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ اس کی رپورٹ درج ہو گئی ہے، بلکہ اصل قانون یعنی سیکشن 154 ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی بھی کی جاتی ہے۔
اسی طرح جن معاملات میں صرف درخواست روزنامچہ میں درج کی جانی چاہیے، وہاں بھی محرر حضرات اپنی سہولت کے لیے اسے 5-اےاے رجسٹر میں ڈال دیتے ہیں تاکہ ان پر کوئی بوجھ نہ آئے۔ اس طرح اصل ذمہ داری سے فرار حاصل کیا جاتا ہے اور عوام کو دادرسی کے بجائے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رجسٹر 5-اےاے پولیس کلچر کا وہ کالا داغ ہے جس نے انصاف کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور قانون کی اصل روح کو دفن کر دیا ہے۔
تھانہ جاتی نظام میں عوام کو سب سے زیادہ دھوکہ جس طریقے سے دیا جاتا ہے وہ رجسٹر 5-اےاے ہے۔ یہ رجسٹر نہ تو پولیس رولز میں قانونی طور پر تسلیم شدہ ہے اور نہ ہی ضابطہ فوجداری (Cr.P.C.) کے تحت اس کا کوئی وجود ہے، بلکہ یہ محض محرر صاحبان کا بنایا ہوا ایک غیر قانونی حربہ ہے۔ جب کوئی شہری اپنی شکایت لے کر تھانے میں پہنچتا ہے اور اس کا معاملہ قابل دست اندازی پولیس ہوتا ہے، تب بھی ایف آئی آر کے بجائے اسے رجسٹر 5-اےاے میں درج کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف شہری کو یہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ اس کی رپورٹ درج ہو گئی ہے، بلکہ اصل قانون یعنی سیکشن 154 ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی بھی کی جاتی ہے۔
اسی طرح جن معاملات میں صرف درخواست روزنامچہ میں درج کی جانی چاہیے، وہاں بھی محرر حضرات اپنی سہولت کے لیے اسے 5-اےاے رجسٹر میں ڈال دیتے ہیں تاکہ ان پر کوئی بوجھ نہ آئے۔ اس طرح اصل ذمہ داری سے فرار حاصل کیا جاتا ہے اور عوام کو دادرسی کے بجائے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رجسٹر 5-اےاے پولیس کلچر کا وہ کالا داغ ہے جس نے انصاف کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور قانون کی اصل روح کو دفن کر دیا ہے۔
یوں محرر اور منشی پر ایک ایسا دباؤ حاوی رہتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کی دادرسی پسِ پشت ڈال دی جاتی ہے۔ اس طرح کا سیاہ اور غیر شفاف نظام نہ صرف پولیس پر عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ عدالتی انصاف کے پورے ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون کی حکمرانی صرف کاغذی ہے جبکہ عملی طور پر طاقتور افراد اور تھانہ کلچر ہی اصل فیصلے کرتے ہیں۔
ہمارے تھانہ کلچر میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی ایس ایچ او ایک تھانے سے دوسرے تھانے کا تبادلہ لے کر جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہی محرر، منشی، گنر اور تفتیشی بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس رویے نے پورے نظام کو شخصی مفاد اور گروہی اجارہ داری میں بدل دیا ہے۔ یوں ایس ایچ او اپنی پسند کے عملے کے ساتھ نئی جگہ پر بھی ایک ہی طرح کا ماحول قائم کر لیتا ہے، جہاں فیصلے قانون کے بجائے ذاتی تعلقات اور مفادات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اس روش سے نہ صرف میرٹ اور شفافیت کا جنازہ نکلتا ہے بلکہ عوام کی داد رسی مزید متاثر ہوتی ہے۔
یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمانہ تبادلے دراصل فردِ واحد کے گرد گھومتے ہیں نہ کہ ادارے اور قانون کے اصولوں کے مطابق۔ محرر، منشی اور تفتیشی کی یہ "ٹیم کلچر” پولیس کو ادارہ کے بجائے ایک "ذاتی نیٹ ورک” میں بدل دیتی ہے، جس میں عوام کی شکایات اور انصاف کی ضرورت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔
جب کوئی عام شہری تھانے میں اپنی فریاد لے کر آتا ہے تو قانون کے مطابق پولیس کے پاس تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں:
- اگر جرم ناقابلِ دست اندازی پولیس ہے (Non-Cognizable Offence) تو اس کی رپورٹ لازمی طور پر روزنامچہ (Roznamcha) میں درج کی جائے اور شہری کو آگاہ کیا جائے کہ اس کا مقدمہ عدالت کے ذریعے چل سکتا ہے۔
- اگر کوئی سادہ درخواست ہے جس میں شہری اپنی کسی شکایت یا خدشے کا ذکر کرتا ہے تو وہ بھی روزنامچہ میں باقاعدہ اندراج کے ساتھ محفوظ کی جانی چاہیے تاکہ ریکارڈ میں رہے اور آئندہ کارروائی ممکن ہو۔
- اگر جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہے (Cognizable Offence) تو قانوناً لازمی ہے کہ فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے (سیکشن 154، ضابطہ فوجداری کے تحت) تاکہ تفتیش کا باقاعدہ آغاز ہو اور انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔
یہ اصولی اور قانونی تقسیم انصاف کی فراہمی کی بنیاد ہے، لیکن موجودہ تھانہ کلچر میں ان بنیادی ضابطوں کو دانستہ نظرانداز کر کے جرائم کو دبایا جاتا ہے، درخواستوں کو کاغذی کارروائی تک محدود رکھا جاتا ہے اور ایف آئی آر کے اندراج کو ذاتی مفاد اور دباؤ سے مشروط کیا جاتا ہے۔ یہی وہ انحراف ہے جس نے پورے پولیس نظام پر عوام کا اعتماد مجروح کر دیا ہے۔
: تھانوں میں رجسٹر "5-اےاے” کا غیر قانونی استعمال اور اس کے قانونی حیثیت
پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا پہلا دروازہ تھانہ ہے۔ ہر شہری کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ اس کی شکایت یا فریاد کو قانون کے مطابق درج کیا جائے اور اس پر کارروائی کی جائے۔ تاہم، عملی طور پر تھانہ کلچر میں بعض ایسے غیر قانونی طریقے رائج ہیں جو نہ صرف عوام کو انصاف سے محروم کرتے ہیں بلکہ پولیس سروس کے قواعد و ضوابط کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور عام ہتھکنڈہ رجسٹر "5-اےاے” ہے۔
رجسٹر 5-اےاے کیا ہے؟
رجسٹر 5-اےاے پولیس رولز یا ضابطہ فوجداری (Cr.P.C.) میں کہیں بھی مجاز یا منظور شدہ رجسٹر کے طور پر موجود نہیں۔ یہ دراصل ایک غیر قانونی رجسٹر ہے جسے محرر اور منشی صاحبان نے خود ساختہ طور پر عوام کو ٹالنے اور اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے رائج کیا۔
اس رجسٹر میں درج درخواستوں کو قانونی اندراج (روزنامچہ یا ایف آئی آر) نہیں سمجھا جاتا۔
شہری کو دھوکہ دینے کے لیے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اس کی شکایت درج ہو گئی ہے، حالانکہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
نتیجتاً سنگین جرائم بھی اکثر اسی رجسٹر میں دب جاتے ہیں۔
- قانونی پوزیشن
(الف) ضابطہ فوجداری 1898 (Cr.P.C.)
سیکشن 154 Cr.P.C.: ہر قابل دست اندازی جرم (Cognizable Offence) پر پولیس افسر پابند ہے کہ اسے فوری طور پر ایف آئی آر کی صورت میں درج کرے۔
سیکشن 155 Cr.P.C.: ناقابل دست اندازی جرم ( Non-Cognizable) کی صورت میں روزنامچہ میں اندراج کیا جائے اور عدالت کو اطلاع دی جائے۔
(ب) پولیس رولز 1934
رول 22.48: ہر شکایت یا اطلاع کا اندراج لازمی طور پر روزنامچہ (Daily Diary– Register No. II) میں ہونا چاہیے۔
پولیس رولز میں "5-اےاے” نام کا کوئی رجسٹر موجود نہیں، لہٰذا اس میں اندراج سراسر غیر قانونی ہے۔
پاکستان کی مختلف عدالتوں نے کئی بار یہ قرار دیا ہے کہ:
ایف آئی آر کے اندراج میں پولیس کے پاس کوئی صوابدید نہیں۔
(PLD 2005 SC 730)
شکایت درج نہ کرنا یا جرم کی نوعیت کو کم کر کے اندراج کرنا آئین کے آرٹیکل 9 (زندگی و آزادی کے حق) اور آرٹیکل 4 (قانون کے مطابق سلوک) کی خلاف ورزی ہے