Skip to content

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

شیئر

شیئر

چودہ اگست  کو پاکستان میں یومِ آزادی کا جشن ہر طرف خوشی اور جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ  انیس سو سینتالیس   میں ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی، اور اپنے لیے ایک نیا راستہ منتخب کیا تھا۔  کل بھی ہم نے آزادی کا جشن   منا

یا  لیکن اس کے  ساتھ یہ سوال بھی   ہے  کہ ہم واقعی آزاد ہیں یا نہیں؟ کیا ہم نے وہ حقیقی آزادی حاصل کی ہے جس کا خواب ہمارے آباء و اجداد نے دیکھا تھا؟    آزادی کی حقیقت آج کچھ مختلف ہے۔  انیس سو سینتالیس   میں ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی، لیکن آج ہم کرپشن، مہنگائی، رشوت، اقربا پروری، اور دہشت گردی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔

ہم آزادی کے نام پر جشن مناتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اقتصادی اور معاشرتی مسائل سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کا عفریت ہر گھر کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ عام آدمی کے لیے ضروریاتِ زندگی پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری نے ہماری حکومتوں اور اداروں کو گھن چکر بنا دیا ہے، جہاں بدعنوانی ایک معمول بن چکی ہے۔ رشوت کا کھیل اب ایک قومی کھیل کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور ملک کی سیاست میں اس کا عمل دخل ہے۔

 انیس سو سینتالیس میں ہم نے آزادی حاصل کی، مگر آج مہنگائی ہمارے جیبوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ – پہلے لالٹین کے نیچے پڑھتے تھے، آج لوڈ شیڈنگ کے نیچے سوتے ہیں۔ – پہلے انگریز کی چھڑی سے ڈرتے تھے، آج پولیس والا بھتہ اور کلرک کی نظرِ کرم سے کانپتے ہیں۔  صبح مہنگائی کے خلاف نعرے لگائیں، دوپہر کوبجلی کے بل جلائیں (اگر بجلی ہو تو)، شام کوکرپشن کے خلاف میمز بنائیں۔ – گھر پر قومی ترانہ سنیں، اور جب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں تو سوچیں زندہ باد ہونے کے لیے پہلے زندہ تو ہونا چاہیے- پاکستان میں ٹیکس صرف ایماندار لوگ دیتے ہیں، باقی سب کو خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ – یہاں تعلیم سے زیادہ کوچنگ سینٹرز کی تعداد ہے۔ عدالت میں انصاف ملنے میں اتنا وقت لگتا ہے کہ اگر آپ بچپن میں کیس کروائیں تو بوڑھے ہو کر فیصلہ سنیں گے۔ 

انیس سو سینتالیس میں ہم نے جو آزادی حاصل کی ہے، وہ اس حقیقت کو سامنے رکھے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کہ ہم معاشرتی مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہیں۔ کرپشن اور مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں خونریزی اور دہشت گردی نے امن و سکون کو تباہ کر دیا ہے۔ پولیس اور دیگر سرکاری ادارے اب عوام کو تنگ کرنے کی بجائے ان سے پیسہ بٹورنے میں مصروف ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ سرکاری ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو پیسہ اور تعلقات کی ضرورت پڑتی ہے۔

آج کے دن یہ سوال ضروری ہے کہ ہمیں کس سے آزادی چاہیے؟ کیا ہم نے واقعی اپنے ملک کو آزاد کر لیا ہے؟ ہم ابھی تک نئے استعمارکے شکار ہیں، جو کرپشن، مہنگائی، اور خود سے لگائی گئی برائیوں کی صورت میں ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکا ہے۔ ہم جب تک ان برائیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتے، ہم کبھی بھی اصل آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔  ہمیں آزادی چاہیے، لیکن وہ حقیقی آزادی جو ہمیں معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر آزاد کرے۔ ہمیں آزادی کے اصل مفہوم کو سمجھنا ہو گا۔ آج پاکستان میں آزادی کے نام پر جو جشن منایا جاتا ہے، وہ صرف ایک دکھاوے کی آزادی ہے۔ حقیقی آزادی کا مطلب ہے کہ ہم کرپشن، رشوت، اور اقربا پروری سے آزاد ہوں۔ ہمیں ہر سطح پر آزادی چاہیے، چاہے وہ بولنے کی ہو، جینے کی ہو، یا اپنے حق کے لیے لڑنے کی ہو۔۔پاکستان میں خواتین کو بھی آزادی چاہیے۔ آزادی کا مطلب صرف مردوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین کو اپنی زندگی گزارنے، اپنے حقوق کی حفاظت کرنے، اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کا پورا حق ملنا چاہیے۔ انہیں آزادی کے اظہار کا حق دینا، بولنے کی آزادی دینا، اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینا ضروری ہے۔ 

چودہ اگست  دو ہزار پچیس کو ہم نے بھی گوانگژو (چین) میں پاکستانی قونصل خانے کے ساتھ یومِ آزادی کا جشن منایا۔ پاکستان سے باہر رہنے والوں کے لیے اپنا سبز ہلالی پرچم دیکھنا ہی بہت باعثِ سکون ہوتا ہے۔ ہم قونصل  خانے کے شکرگزار ہیں جنہوں نے یہ دن یادگار بنایا۔ 

البتہ، تقریب میں ایک خاتون اہلکار کے رویے نے ہمیں کچھ مایوس کیا۔  ہمیں کچھ حد تک "تنقید پسند” کا ٹیگ  بھی ملا  مگر یاد رکھیےکریٹکس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی چیزکو برا کہتے ہیں جب ہم کسی کمی یا خامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تو ہمارا مقصد صرف اور صرف بہتری لانا ہوتا ہے۔ تنقید مزید بہتری کے لیے ہوتی ہے۔

 اب بات کرتے ہیں پاکستان کی اندرونی صورتحال کی، جہاں مہنگائی، کرپشن اور ظلم و جبر نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں خونریزی اور دہشت گردی نے امن و سکون کو تباہ کر دیا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں، تو پہلے انگریز کی چھڑی سے ڈرتے تھے، اب پولیس والے بھتہ لیتے ہیں، کلرک کی نظر کرم سے ہم چھپتے ہیں۔ ہم آج بھی نئے دشمنوں کے چنگل میں ہیں، جیسے  ،بدعنوانی، مہنگائی،   چیز پر دنگے دہشت گردی، خون  ریزی، بُری عادتیں اور دیگر معاشرتی برائیاں۔ ہمیں ان دشمنوں سے لڑنے کی ضرورت ہے اور اپنے ملک کو اس نئے استحصال سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام مسائل ہمارے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں رچ بس چکے ہیں اور آزادی کی اصل حقیقت کو ہم سے چھینتے جا رہے ہیں۔ آج کی آزادی میں وہ جوش و جذبہ نہیں ہے جو  انیس سو سینتالیس میں تھا، اور اس کا سب سے بڑا سبب ہمارے اندر کی کمزوریاں اور برائیاں ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں خون ریزی، بلوچستان میں حالات کی خرابی، اور مہنگائی کا عذاب، یہ سب ہمارے لیے ایک اذیت بن چکے ہیں۔ اور جہاں ایک طرف ہم جشن آزادی مناتے ہیں، وہاں دوسری طرف ہمارے معاشرتی مسائل ہمارے چہرے پر ایک سیاہ دھبہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں  انیس سو سینتالیس میں جب آزادی ملی تھی، تو ہم نے ایک نئی امید دیکھی تھی، لیکن اب وہ امید صرف ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس پر دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں. ہم جب تک اپنے ملک کی خامیوں کو نہیں سمجھیں گے، ہم کبھی بھی ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے، حقیقت پسندانہ طریقے سے ان برائیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔  

چودہ اگست  کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے آزادی حاصل تو کی تھی، لیکن ہمیں یہ آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔  یہ آزادی کا دن ہمیں اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے اور ان پر قابو پانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یومِ آزادی کے دن ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم نے آزادی حاصل تو کی تھی، لیکن وہ آزادی آج ہمیں درکار ہے جو ہمیں کرپشن، مہنگائی، اور اقربا پروری سے آزاد کرے۔ ہمیں اس آزادی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا ہمیں اپنی خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے، حقیقت پسندانہ طریقے سے برائیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک بہتر پاکستان کی تعمیر کر سکیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں ہمارے ملک میں خوبیاں ہیں، وہاں برائیاں بھی ہیں۔ لیکن یہ برائیاں ہمیں ان کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکتیں۔

یومِ آزادی کا جشن صرف نعرے بازی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی آزادی کو دوبارہ اصل معنوں میں حاصل کریں۔ اس دن نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہم اپنی نسلوں کے لیے ایک بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگلے یومِ آزادی پر ہم اپنی آزادی کے جشن کو صرف آزادی کی علامتوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ حقیقی تبدیلی کے لیے کام کریں۔ ہمیں اپنے ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور اپنی برائیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اور اپنے ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی ممکن ہو سکے گا، وہ کریں گے۔ اور ہاں جس قوم نے انگریز کو نکالا، وہ ان نئی عفریتوں کو بھی نکال دے گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم نعرے بازی کی بجائےعمل کریں۔ ورنہ اگلے یومِ آزادی پر ہم مہنگائی، کرپشن اور بے انصافی کو ہی سالگرہ کے کیک پر کاٹیں گے! ہم نے  انیس سو سینتالیس میں آزادی حاصل کی تھی، ابذمہ داری حاصل کرنے کی باری ہے۔ ورنہ ہماری اگلی نسل ہم سے یہی پوچھے گی کہ یہ آزادی تھی یا مذاق؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں