رابعہ سید
پاکستان کی آزادی کا دن، 14 اگست، ہر پاکستانی کے دل میں ایک الگ ہی جذبہ اور ولولہ پیدا کرتا ہے۔ قومی پرچم، قومی ترانے، سبز و سفید لباس، اور ایک عجیب سا جوش فضا میں محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ایک اور چیز ہے جو اکثر اس دن کے ساتھ جڑی نظر آتی ہے وہ ہے بارش۔۔۔۔
بچپن کی باتیں اور بزرگوں کا عقیدہ
بچپن میں بزرگ کہا کرتے تھے:
جشنِ آزادی کے دن بارش ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ شہداء کے خون کو دھونے کے لیے آتی ہے۔
ان کے مطابق، آزادی کی خاطر جان دینے والے بے شمار شہداء کی قربانیوں کی یاد میں آسمان گویا اشک بہاتا ہے۔ یہ عقیدہ ایک روحانی اور جذباتی پہلو رکھتا ہے، جو ہمیں اپنے ماضی سے جوڑتا اور قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
مشاہدہ, اتفاق یا حقیقت؟
اگر آپ غور کریں تو واقعی کئی سالوں میں 14 اگست کو بارش ہوتی دیکھی گئی ہے۔ خاص طور پر بچپن میں جب موسم گرما کا آخری حصہ تھا، برسات کا موسم عروج پر ہوتا، اور اکثر آزادی کے دن بارش ایک خوشگوار تحفہ لاتی تھی۔ اس بارش میں ایک عجیب سی ٹھنڈک اور سکون محسوس ہوتا ہے، جیسے فطرت بھی جشن میں شامل ہو گئی ہو۔
سائنس کا زاویہ
موسمیات کے ماہرین کے مطابق، اگست پاکستان میں مون سون کا مہینہ ہے۔
جولائی اور اگست میں نمی اور ہواؤں کے باعث بارش کا امکان زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر پنجاب، خیبر پختونخوا، اور کشمیر کے علاقوں میں۔ اس لیے 14 اگست کو بارش ہونا موسمی حالات کا فطری نتیجہ بھی ہو سکتا ہے، نہ کہ محض ایک معجزہ۔
روحانی پہلو
اگرچہ سائنسی طور پر یہ بارش مون سون کے شیڈول کا حصہ ہے، لیکن جذباتی اور روحانی سطح پر اس کا تعلق قربانی اور شہداء کی یاد سے جوڑنا بالکل قدرتی ہے۔ قومیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے ایسے ہی علامتی تصورات کو دل میں زندہ رکھتی ہیں۔
یہ سوچ کہ آسمان بھی ہمارے شہداء کی قربانی پر نرمی برساتا ہے، ایک خوبصورت احساس ہے جو جشنِ آزادی کو اور بھی معنی خیز بنا دیتا ہے۔
چاہے یہ بارش موسمی اتفاق ہو یا قدرت کا پیغام، یہ بات طے ہے کہ 14 اگست کی بارش میں ایک الگ ہی خوشبو، ایک الگ ہی سکون اور ایک الگ ہی جذبہ چھپا ہے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی کسی کاغذ پر لکھی تاریخ نہیں، بلکہ خون اور قربانی سے لکھی گئی داستان ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بارش کے قطرے بھی ہمیں اس قربانی کا لمس دیتے ہیں۔