Skip to content

سائنس فلسفے کا متبادل نہیں، نہ ہی دونوں میں کوئی تضاد ہے

شیئر

شیئر

وحید مراد

سائنس اور فلسفہ کا تضاد حقیقت نہیں غلط فہمی ہے۔ یہ ایک بڑا مغالطہ ہے کہ سائنس نے فلسفے کی جگہ لے لی ہے اور اب فلسفہ غیر ضروری ہو چکا۔ کچھ لوگ سائنس کو مکمل حقیقت اور فلسفے کو محض قیاس آرائی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ دونوں انسان کے شعور، عقل اور وجودی سوالات کے دو الگ مگر باہم جڑے ہوئے راستے ہیں۔ ان دونوں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک گہرا ربط ہے جو انسانی فہم کی تکمیل کرتا ہے۔

سائنس مادی کائنات کے "کیا” اور "کیسے” کو سمجھنے کا ذریعہ ہے جبکہ فلسفہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ” کیوں”۔ سائنس تجربہ، مشاہدہ اور قوانین فطرت کے ذریعے مادی دنیا کو سمجھتی ہے لیکن فلسفہ ان تمام مشاہدات کے پس منظر میں پوشیدہ حقیقتوں، معنویت اور مقصدیت کا جائزہ لیتا ہے۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے مگر یہ سوال کہ یہ حرکت کائناتی نظم کا حصہ کیوں ہے، فلسفہ کا دائرہ کار ہے۔

مذہب، فلسفہ اور سائنس انسان کی فطری جستجو، بنیادی ضرورت اور ازلی خواہش کے مختلف روپ ہیں۔ تینوں کا مقصود ایک ہی ہے: حقیقت کا ادراک، معنویت کی تلاش اور کائنات میں انسان کے مقام کی پہچان۔ فرق صرف ان کے طریقِ کار اور اظہار میں ہے۔مذہب ایمان کے چراغ سے راہ دکھاتا ہے، فلسفہ عقل کی روشنی میں سوالات اٹھاتا ہے اور سائنس تجرباتی شواہد کی بنیاد پر جوابات تلاش کرتی ہے۔

فلسفہ نے جن سوالات کو جنم دیا انہی سوالات پر سائنس کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ فلسفہ اور سائنس میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے یونانی فلسفیوں سے لے کر اسلامی مفکرین تک سب نے یہ واضح کیاکہ سائنس فلسفے سے پیدا ہوئی۔ لیکن جس طرح فلسفہ مذہب کا نعم البدل نہیں ویسے ہی سائنس فلسفے کی جگہ کبھی نہیں لے سکتی۔ سائنس اپنے سائنسی طریقہ کار اور تجربات کے ذریعے صرف ان چیزوں پر بات کر سکتی ہے جو حسی تجربے اور مشاہدے میں آ سکیں مگر وجود، شعور، ضمیر، خیر و شر، محبت اور معنویت جیسے موضوعات پر خاموش ہے۔ ان سوالات کا تعلق فلسفے اور مذہب سے ہے جنہیں سائنس کے فارمولے بیان نہیں کر سکتے۔

فلسفہ سائنس کو معنویت عطا کرتا ہے۔ سائنس اگر ایٹم کا تجزیہ کرتی ہے تو فلسفہ سوال اٹھاتا ہے کہ اس ایٹم کے اندر جو نظم ہے اس کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ بلیک ہولز کی تفصیلات سائنس بیان کرتی ہے مگر فلسفہ پوچھتا ہے کہ کائنات کے اس عظیم الشان نظام میں انسان کا مقام کیا ہے؟ اگر فلسفہ نہ ہو تو سائنس محض ڈیٹا اور اعداد و شمار کا ایک بے جان مجموعہ بن کر رہ جائے گی جس میں انسانی شعور، اخلاقیات اور وجودی فہم کا کوئی دخل نہ ہو گا۔

سائنس فلسفے کے بغیر محض ایک میکانیکی عمل بن جاتی ہے جبکہ فلسفہ سائنس کے بغیر خالی نظریات کی ایک دنیا میں قید ہو جاتا ہے۔ سائنسی نظریات خود فلسفیانہ مفروضات پر کھڑے ہوتے ہیں اور سائنسی طریقہ کار کی بنیاد بھی فلسفہ ہی میں ہے۔

یہ سمجھ لینا کہ سائنس چونکہ تجرباتی ثبوت فراہم کرتی ہے اس لیے وہ مطلق سچائی کی حامل ہے، ایک فکری خام خیالی ہے۔ سائنسی نظریے ہمیشہ عارضی حقائق ہوتے ہیں جو کسی بہتر نظریے کی شکل میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نیوٹن کے قوانین پر صدیوں یقین کیا گیا مگر آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت نے ان کی حدود واضح کر دیں۔ کوانٹم فزکس نے سائنس کی قطعیت کے دعوے کو مزید چیلنج کیا۔ سائنس ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے اس کے سچ عارضی ہیں جبکہ فلسفہ ان سچائیوں کو معنویت کی تلاش میں ایک بڑے کائناتی پس منظر میں رکھ کر دیکھتا ہے۔

جو لوگ سائنس کو فلسفے کا متبادل سمجھتے ہیں وہ نہ سائنس کی گہرائی کو سمجھتے ہیں اور نہ فلسفے کی معنویت کو۔ سائنس انسانی شعور کو کائنات کے ظاہری حقائق سے روشناس کراتی ہے جبکہ فلسفہ اسے وجودی، اخلاقی اور روحانی معانی فراہم کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان تضاد پیدا کرنا درحقیقت انسانی عقل اور وجدان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔

مذہب، فلسفہ اور سائنس کی کشمکش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم مذہب کو مولویوں، فلسفے کو فلسفیانہ تحریکوں اور سائنس کو لیبارٹریوں اور اداروں تک محدود کر کے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ فلسفہ ایک مسلسل سوال، استدلال اور تحقیق کا نام ہے، سائنس حقیقت کی جستجو، تجربہ، مشاہدہ اور نتیجہ اخذ کرنے کا علم ہے اور مذہب ایک روحانی، اخلاقی اور وجودی شعور ہے جو انسانی زندگی کو باطنی سکون، اخلاقی تطہیر اور خیر و شر کی پہچان دیتا ہے۔

اگر مذہبی ادارے تعصب پھیلاتے ہیں، فلسفی تحریکیں تنگ نظری کا شکار ہو جاتی ہیں یا سائنسی ادارے مادیت پرستی کی حدوں میں قید ہو جاتے ہیں تو تنقید ان اداروں پر ہونی چاہیے نہ کہ مذہب، فلسفہ اور سائنس کے بنیادی تصورات پر۔ نظریات، تصورات اور تعلیمات کی اصلاح محض تنقید، تمسخر یا لیبلنگ سے نہیں ہوتی بلکہ ان کا جواب بہتر دلائل، گہرے فکری متبادل اور صحیح تعبیرات کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ مذہب کے نام پر شدت پسندی کرتے ہیں یا فلسفے اور سائنس کے نام پر مذہب دشمنی کا پرچار کرتے ہیں وہ دراصل طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں، علم و شعور کا نہیں۔

عوام میں حقیقی بیداری اس وقت آئے گی جب ہم ہر سطح پر اداروں کی خامیوں کو سمجھ کر، اصولوں کی گہرائی میں جا کر، ان نظریات کو بہتر دلائل، شعور اور علم کی روشنی سے ازسرنو بیان کریں گے۔ محض نظریات کا تمسخر اڑانے سے نہ فلسفہ ختم ہوگا نہ سائنس رک سکتی ہے اور نہ مذہب کی ضرورت کم ہو گی۔ جب تک انسان کا شعور زندہ ہے یہ تینوں علم کے دائرے باہم مربوط رہیں گے۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابل لا کر دیکھنا ایک بے سود مشق ہے جو انسان کی فکری و روحانی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ (جاری ہے)

چوتھی قسط: زندگی کا مقصد، فطرت کی ہم آہنگی اور الحاد کا فریب

پانچویں قسط: اسلامی معاشروں میں حقیقی ملحد پیدا ہو ہی نہیں سکتے؟ پھر یہ الحاد کا دعویٰ کرنے والے کون ہیں؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں