Skip to content

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

شیئر

شیئر

احمد فراز

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

آج میں آپ کے سامنے ایک نہایت اہم اور گہرا سوال رکھنا چاہتا ہوں:
"کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟”

14 اگست 1947 کا دن ہماری قومی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا گیا ہے۔ اُس دن ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات پائی، اپنا وطن بنایا، اپنی الگ پہچان حاصل کی۔ آزادی کی جیت کا جشن ہر سال دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی اس آزادی کے معنی و مطلب پر غور بھی کیا؟
آیا آزادی ہے کیا ؟
کیا آزادی صرف ایک دن کا تہوار ہے، یا یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو ہمارے ہر دن رات کو خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔
لیکن آج، 78 برس بیت جانے کے بعد، ہم کہاں کھڑے ہیں؟
وہ قومیں کہاں جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئیں تھی وہ کہاں ہیں؟
آئیں آزاد قوموں کی علامات دیکھتے ہیں کہ آزاد قوموں کی کیاکیا علامات ہیں
آزادی کی سب سے پہلی علامت ہے — زبان۔
آزاد قوموں کی اپنی زبانیں ہوتی ہیں جن میں وہ اپنی ثقافت، تہذیب، اور تاریخ بیان کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں؟
ہمارے تعلیمی ادارے سرکاری دفاتر، اور ہمارے آزاد ملک کی اسلامی عدالتیں، آج بھی خارجی قوانین و زبان کے زیر سایہ چلتے ہیں۔ کیا ہماری اپنی زبان اس ملک کی دفتری زبان نہیں بن سکی؟
یہی زبان ہماری سوچ، ہماری پہچان، ہماری آزادی کا آئینہ ہے۔ جب زبان پر بیرونی اثرات غالب آئیں تو پھر آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

افسوس کہ ہمارے پاس وہ زبان نہیں جسے ہم اپنی شناخت سمجھیں۔

دوسری علامت — معاشی آزادی۔
ہماری نوجوان نسل، جو ہاتھوں میں ڈگریاں لیے ہوئے ہے، بے روزگاری کی دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے۔
بدعنوانی جیسے مہلک مرض نے ہمارے وسائل کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ سرکاری خزانے خالی ہیں
ہمارے وزیروں اور مشیروں کے گھر میں رکھے ہوئے پالتوکتوں کا جنم دن تو منایا جاتا ہے، لیکن عوام کے لیے روزگار کے دروازے بند ہیں۔
آیا یہ ایک آزاد قوم کی علامت ہے؟
ہر آنے والی نئی حکومت پچھلی حکومت پر الزام لگا کرقومی خزانے کا ان سےبڑھ کرصفایا کر جاتی ہے
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنا ہمارے معاشرے کا المیہ بن چکا ہے۔
لوگ پیٹ پالنے کے لیے اپنا خون تک فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں
یہی نہیں، ملک میں چوری، بدعنوانی، قتل، اور معاشی استحصال عام ہو چکا ہے۔
جس ملک میں نوجوان مایوسی کے مارے خودکشیاں کر رہے ہوں، وہاں آزادی کی بات کیسے کی جائے؟
یہی نہیں، حکومتی سطح پر عیش و عشرت کے چرچے عام ہیں۔ لاکھوں روپے کے لباس، فضول خرچی کے دورے، اور عوام کی حالتِ زار ایک تلخ حقیقت ہے۔
عوام کی حالتِ زار دیکھ کر میرے قلم نے مجھے یہ اشعار لکھنے مجبور کیا

اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
تیسری علامت — سیاسی اور عدالتی خودمختاری۔
ہمارے سیاستدانوں کے فیصلے اکثر خارجی اثرات پر ہوتے ہیں۔ ملک کا اقتدار جب اندرونِ ملک کی بجائے بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں ہو، یا پھر عدلیہ کے فیصلے اسلام آباد کے بجائے واشگنٹن میں کیے جائیں تو ایک باشعور شخص کے ذہن میں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ
ہم کس حد تک آزاد ہیں؟

  • عدلیہ میں عدل کا فقدان ہے،
  • رشوت اور سفارش کا نظام عام ہے
  • آج ہمارا سماج کئی سنگین مسائل کا شکار ہے
  • تعلیم کا معیار پستی کا شکار،
  • صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان،
  • غربت، بے روزگاری اور مہنگائی،
  • دہشتگردی، امن و امان کی خراب صورتحال، سیاسی ابتری
  • آج ہمارا ملک طوائف الملوکی کاشکار ہونے والا ہے۔
  • نوجوانوں میں بے حسی اور مایوسی،
  • اور سب سے بڑھ کر حکومتی نااہلی اور بد عنوانی تو قم کا وتیرہ بن چکی ہے۔

یہ کیسی آزادی ہے؟
جس میں ہم صرف سڑکوں پر ناچ گانے اور موٹر سائیکلوں کے سلینسروں سے آوازیں نکالنے تک محدود ہیں اسے ہم آزادی سمجھ بیٹھے ہیں۔
باجا بجانا ہی آزادی ہے تو آپ کا نعرہ بجا ہے۔

یہ کیسی خودمختاری ہے جس میں ہم صرف اگست کے مہینے میں جھنڈیاں لہراتے ہیں اور ملی نغمے پڑھتے ہیں؟

فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا تھا:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ ا،نتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

آزادی کا مطلب ہے
اپنی زبان تہذیب، ثقافت، اور خود مختار فیصلے کرنا۔
آزادی کا مطلب ہے ہر انسان کو مساوی حقوق دینا، معاشی استحصال سے بچانا، تعلیم و انصاف فراہم کرنا۔
سماجی برابری کا استخام ہوتا ہے ناکہ فرقہ واریت کا عام کرنا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، اپنی آواز بلند کریں اور اپنی آزادی کی اصل تصویر کو سامنے لانا ہوگا۔
یہ آزادی صرف ایک دن کا جشن نہیں، بلکہ روزانہ کی جدوجہد ہے۔

اگر ہم نے اپنی آزادی کو محض رسمی تقریبات اور ملی نغموں تک محدود کر دیا، تو ہم اپنے ماضی اور مستقبل دونوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ اگر ان تمام پہلو پر اگر منطقی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم آزاد نہیں
ہاں، ہاں ہم آزاد نہیں بلکہ غلط فہمی اور خود فریبی کا شکار ہیں

آئیے عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کو اس مقام پر لے جائیں گے جہاں ہر فرد کو اس کی عزت، حقوق، اور معاشی و سماجی خوشحالی حاصل ہو۔

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر
جوغاصبوں کوقصیدوں سےسرفراز
کرے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں