Skip to content

مذہب، فلسفہ اور سائنس : تضاد نہیں، معاونت کا رشتہ

شیئر

شیئر

وحید مراد

سائنس، فلسفہ اور مذہب تینوں انسان کی فطری ضرورت ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ تینوں راستے ایک دوسرے کے متضاد ہیں، دراصل انسانی شعور کی وسعت کو نہ سمجھنے کی علامت ہے۔ مذہب نے فلسفہ کو جنم دیا، فلسفہ نے سائنس کو آگے بڑھایا اور سائنس نے مادی دنیا کو سمجھنے کے دروازے کھولے لیکن آج بھی ایسے سوالات موجود ہیں جن کا جواب نہ فلسفہ دے پایا ہے نہ سائنس۔ ہم کیوں زندہ ہیں؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ موت کے بعد کیا ہوگا؟ خیر و شر کا حقیقی معیار کیا ہے؟ یہ سب سوالات صرف وحی اور قلبی بصیرت کے ذریعے ہی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ مذہب نہ صرف ان سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے بلکہ انسان کو مطمئن بھی کرتا ہے۔

یہ کہنا کہ اگر مذہب انسان کو مطمئن کر پاتا تو فلسفہ کبھی پیدا نہ ہوتا، دراصل انسانی شعور کی گہرائی کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ فلسفہ کو مذہب کے مقابل لا کر دیکھنا ایک سطحی سوچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب روح کی تسکین ہے اور فلسفہ عقل کی اور انسان دونوں کا محتاج ہے۔ فلسفہ استدلال کا راستہ ہے اور مذہب وجدان کا، انسان کا وجود دونوں کے توازن سے مکمل ہوتا ہے۔ عقل کے ذریعے انسان کائنات پر غور کرتا ہے تو فلسفہ پیدا ہوتا ہے اور جب وہ اپنے وجود کے ماورائی سوالات کا جواب چاہتا ہے تو مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مذہب فلسفے کو روحانی گہرائی عطا کرتا ہے اور فلسفہ مذہب کی باریکیوں کو اجاگر کرتا ہے۔

مذہب کی مطلقیت کو جمود کا الزام دینا ایک فکری مغالطہ اوراس کے اصولوں کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ مذہب کے اصول مطلق ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر وقت اور حالات کے ساتھ ارتقا پذیر رہتی ہے۔ اجتہاد، تجدید اور احیائے دین اسی بات کی دلیل ہیں کہ دین ایک زندہ اور متحرک نظام ہے۔ مذہب اپنی مطلقیت میں انسانی فطرت کے ان اصولوں کو بیان کرتا ہے جو ہر زمانے میں سچائی رکھتے ہیں جیسے انصاف، محبت، خلوص، صداقت اور خیر۔ یہ اصول زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں مگر ان کا اطلاق حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ فلسفہ بھی دراصل انہی مطلق حقیقتوں کی تلاش کا نام ہے۔ مذہب ان حقائق تک وحی کے ذریعے پہنچاتا ہے جبکہ فلسفہ عقل و استدلال کے ذریعے انہیں کھوجتا ہے۔ دونوں کا راستہ الگ ہو سکتا ہے لیکن منزل ایک ہے۔

یہ کہنا کہ مذہب غیر متعلق ہو چکا ہے، محض تہذیبی ترقی کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا ہے جو انتہائی سطحی بات ہے۔ آج بھی دنیا کی اکثریت مذہب سے جڑی ہوئی ہے اور سیکولر معاشروں کی اخلاقی اقدار بھی دراصل مذہب ہی کی پیداوار ہیں۔ مغرب میں مذہب کا ادارہ جاتی اثر ضرور کم ہوا ہے لیکن روحانیت، اخلاقیات اور انسانی اقدار کی صورت میں مذہب آج بھی زندہ ہے۔

فلسفہ کبھی خود کو حتمی سچائی کا دعویدار نہیں بناتا بلکہ یہ مسلسل سوال کرنے اور تحقیق کا عمل ہے۔ اگر فلسفہ کو مذہب کا متبادل مان لیا جائے تو فلسفے کا بنیادی اصول یعنی سوال کرنے کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ فلسفہ بذات خود کبھی مذہب کے خلاف کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا بلکہ یہ ہمیشہ ایک کھلے مکالمے کا عمل رہا ہے۔

یہ کہنا کہ مذہب صرف قبائلی معاشروں تک محدود تھا اور فلسفہ نے اسے ختم کر دیا، تاریخی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ مذہب نے ہمیشہ تہذیبوں کی تشکیل کی ہے۔ اسلامی تہذیب، عیسائی تہذیب، بدھ مت تہذیب سب مذہب کے اثرات کا نتیجہ ہیں جنہوں نے دنیا کے علم و دانش، فلسفہ، سائنس اور تمدن کو پروان چڑھایا۔

یہ کہنا کہ جن ممالک میں فلسفہ پیدا ہوا وہاں مذہب کی حکومت ختم ہو گئی ایک مبالغہ ہے۔ مغرب میں مذہبی اداروں کی سیاسی طاقت کم ضرور ہوئی مگر مذہب بطور روحانی و اخلاقی قوت اب بھی معاشرتی شعور کا حصہ ہے۔ برطانیہ آج بھی آئینی طور پر ایک مذہبی ریاست ہے جہاں بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کا سپریم گورنر ہوتا ہے اور امریکہ جیسے لبرل ملک میں بھی صدر بائبل پر حلف اٹھاتا ہے اور کرنسی پر "In God We Trust” لکھا ہوتا ہے۔ مغرب میں مذہب نے اپنی شناخت سیاسی حکومت کے بجائے تمدنی روح کے طور پر محفوظ رکھی ہے۔ ریاست ایک وقتی اور قانونی ڈھانچہ ہے جو جغرافیائی و سیاسی بنیادوں پر بنتا اور بگڑتا رہتا ہے مگر مذہب انسان کے اندرون میں جاگزیں ایک زندہ شعور ہے جو وجود، اخلاقیات، محبت، خیر اور کائنات سے جڑا ہوتا ہے۔ ریاستوں کے زوال یا تبدیلی سے یہ روحانی و اخلاقی ضروریات ختم نہیں ہوتیں۔

فلسفہ اور مذہب کے درمیان تصادم کی جو جعلی کشمکش پیدا کی جاتی ہے وہ دراصل فہم کی ناپختگی ہے۔ فلسفہ کا مقصد مذہب کی نفی نہیں بلکہ مذہبی تصورات کا ارتقاء ہے۔ فلسفہ بھی ایمان کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ فلسفہ جتنا بھی منطقی ہو اس کی بنیاد میں ہمیشہ ایک فکری یقین پوشیدہ ہوتا ہے۔ خدا، آزاد ارادہ اور آخرت جیسے تصورات عقل کی محدود حدوں سے باہر ہیں مگر انسانی شعور کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ فلسفہ صرف سوال اٹھانے کی ہمت دیتا ہے مگر ان سوالات کے جوابات انسان اپنے وجدان، روحانی تجربے اور مذہب کے ذریعے ہی حاصل کرتا ہے۔ مذہب اور فلسفہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکمیلی رخ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی نفی انسان کو نامکمل بنا دیتی ہے۔

فلسفہ کے بغیر مذہب جمود کا شکار ہو سکتا ہے اور مذہب کے بغیر فلسفہ روحانی طور پر قحط زدہ ہو جاتا ہے۔ دونوں کا ملاپ ہی انسان کو مکمل کرتا ہے۔ مذہب انسان کے اندرونی سوالات کا جواب دیتا ہے اور فلسفہ ان سوالات کو مزید گہرائی دیتا ہے۔ ان دونوں کی ہم آہنگی ہی انسان کو وجودی سچائیوں تک لے جاتی ہے جہاں علم، محبت، اخلاقیات اور شعور ایک مکمل وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ فلسفہ و مذہب کی یہ تکمیل ہی انسانی شعور کی اصل معراج ہے۔(جاری ہے)

تیسری قسط : "سائنس فلسفے کا نعم البدل نہیں ، نہ ہی دونوں میں کوئی تضاد ہے”
چوتھی قسط : ” زندگی کا مقصد، فطرت کی ہم آہنگی اور الحاد کا فریب”

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں