Skip to content

فکری جارحیت و منطقی قہر: علمی انحطاط اور رَٹّا کلچرکے بدترین مظاہر

شیئر

شیئر

وحید مراد

علم و فلسفہ کی دنیا میں ہمیشہ یہ اصول مانا گیا ہے کہ سچائی کی تلاش عاجزی، تدبر اور تنقیدی بصیرت کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر آج کی علمی فضا میں بعض ایسے رویے فروغ پا رہے ہیں جو نہ صرف ان فکری تقاضوں سے خالی ہیں بلکہ علم کی اصل روح کے بھی خلاف ہیں۔ تنقید کی آڑ میں طنز، الزامات، تحقیر آمیز زبان ، علمی تکبر اور ٹھپہ لگانے(labeling) کے مظاہرے عام ہو چکے ہیں۔ یہ طرزِ عمل کسی سنجیدہ استدلال کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک اشتعال زدہ ذہنی کیفیت ہے جس کی جڑیں اس رَٹّا کلچر میں پیوستہ ہیں جو بظاہر صرف تعلیمی اداروں تک محدود تھا مگر اب ایک ذہنی فریم ورک میں ڈھل چکا ہے۔

رَٹّا کلچر صرف امتحانات میں کامیابی کے لیے لفظی تکرار تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے سوچنے، سوال اٹھانے اور بات کرنے کے انداز کو بھی متاثر کیا ہے۔ ایسے افراد جو سچائی کی گہرائی، فہم کی باریکی اور تحقیق کے مزاج سے نا آشنا ہوتے ہیں وہ تنقید کو بھی محض نقل، غصہ اور برتری کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ وہ خود کو ہر موضوع پر ماہر خیال کرتے ہیں اور ہر اس بات کو رد کر دیتے ہیں جو ان کے محدود علم سے بالاتر ہو۔ ان کے اذہان سوالات کو اپنانے اور سیکھنے کے بجائے محض فتوے صادر کرنے، تحقیر آمیز فقرے اچھالنے اور مخالفت کو دشمنی بنانے میں لگے رہتے ہیں۔

حقیقی ناقد وہ ہوتا ہے جو سوال اٹھاتا ہے، تحقیق کرتا ہے اور اختلاف کو وقار اور اخلاق کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ سب کچھ نہیں جانتا، اس کے برعکس رَٹّا کلچر میں پروان چڑھنے والا ذہن ہر اختلاف کو ذاتی حملہ سمجھتا ہے۔ یہ ایک علمی بیماری ہے جو تعصب، ضد اور گھمنڈ کو علم کے لباس میں پیش کرتی ہے۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں بظاہر عقل، سائنس، سوال اور تنقید کو روشن خیالی کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت انہی اصطلاحات کے پیچھے اکثر ایک نئی قسم کا تعصب، فکری غرور اور معلوماتی جہالت چھپی ہوتی ہے۔

بعض لوگ جو خود کو آزاد خیال، سائنسی مزاج رکھنے والا اور ترقی پسند کہتے ہیں درحقیقت ایک مخصوص مستعار بیانیے کے اسیر ہوتے ہیں۔ ان کے اعتراضات، سوالات اور اصطلاحات محض ادھورے علم کی گونج ہوتے ہیں جنہیں وہ دہراتے ہیں بغیر یہ سمجھے کہ یہ خود کن مفروضات پر قائم ہیں۔ ایسے ناقدین مذہب، روحانیت، ایمان اور روایت کو نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ انہیں طنز، توہین اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں مگر خود اپنی فکری وابستگیوں، نظریاتی مفروضوں، ذہنی بُتوں اور محبوب انا ( intellectual ego) کو سوال اورمکالمے کے کٹہرے میں لانے سے گھبراتے ہیں۔

خود احتسابی سے گریز کرنے والا شخص درحقیقت ایک فکری رٹا باز ہوتا ہے جس کے اعتراضات کسی گہری تحقیق یا تجزیے کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ بعض مفکرین کی اندھی تقلید کا مظہر ہوتے ہیں جنہیں وہ لاشعوری طور پر اپنے "فکری معبود” بنا چکا ہوتا ہے۔ ایسے افراد کے نزدیک تنقید کا مطلب محض جگت، طعنہ اور الزام ہوتا ہے اور یہی رویہ ان کے لیے فکری برتری کے زعم کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ دوسروں کے مذہبی، ثقافتی یا روحانی وابستگیوں کو ہدفِ تنقید بنا کر یہ کہتے ہیں کہ "مذہب ناکام ہو چکا ، ایمان اندھا ہے، ثقافتی اقدار زنجیریں ہیں” مگر اپنی ذاتی وابستگیوں، نظریاتی جھکاؤ اور گروہی شناخت پر مکمل سکوت اختیار کیے رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعصب صرف مذہب، زبان یا ثقافت تک محدود نہیں، بلکہ نظریاتی، سائنسی، سیاسی، طبقاتی اور ذاتی وابستگیوں میں بھی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔

حقیقی اہلِ علم، چاہے وہ دینی علما ہوں، فلسفی ہوں یا سائنسی محقق، سب ایک بات پر متفق ہیں کہ علم کا جوہر عاجزی ہے۔ سچائی کی تلاش کوئی حتمی دعویٰ نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے جو تحقیق، خلوص اور انکساری کے بغیر ممکن نہیں۔ اکابر اہلِ علم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ جب کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو، تو "میں نہیں جانتا” کہنا سب سے بڑی علمی دیانت ہے۔

جو علم غرور پیدا کرے وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔ تنقید کا مقصد برتری نہیں، فہم ہونا چاہیے۔ بحث جیتنے کا شوق اگر سیکھنے کی جگہ لے لے تو پھر وہ بحث نہیں صرف جھگڑا رہ جاتا ہے۔ اصل عالم وہی ہوتا ہے جو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھے، دوسروں کے زاویہ نظر کو سمجھے اور اپنی بات کو حتمی نہ سمجھے۔ تحقیق ایک مسلسل، لچک دار اور منضبط عمل ہے نہ کہ جذباتی کشمکش۔

فلسفہ اور سائنسی فکر ہمیں سکھاتی ہے کہ کوئی بھی نظریہ کامل نہیں ہوتا بلکہ علم کے ایک منہج اور دائرہ تحقیق تک محدود ہوتا ہے۔ ہر تصور مفروضات کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ مفروضات خود تبدیلی اور تجزیے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جدید فلسفیانہ تصورات جیسے Duhem–Quine Thesis اور Lakatos کا نظریہ یہی بتاتے ہیں کہ علم ایک مربوط جال کی مانند ہے جہاں کوئی مفروضہ تنہا ثابت نہیں ہوتا بلکہ پورے نظامِ فکر کے تناظر میں جانچا جاتا ہے۔ اس نظام فکر سے باہر کی حقیقت کو جھٹلانا عقلیت نہیں نری علم دشمنی ہے۔

امریکی سوشیالوجسٹ Robert K. Merton نے تحقیق کے جو اخلاقی اصول بیان کیے وہ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تحقیق حقیقت پسندی، تنقیدی مزاج اور اجتماعی بہتری کے لیے ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی مفاد، تعصب یا شہرت کے لیے۔ بدقسمتی سے آج بعض افراد تنقید کو محض اظہارِ رائے کی آزادی سمجھتے ہیں مگر اس کی علمی ذمہ داری سے ناواقف ہیں۔ جب تنقید کا محرّک صرف نفرت، طنز اور فالوورز کی تالیاں بن جائے تو وہ سچ کی تلاش نہیں بلکہ فکری زوال کی علامت ہے۔

نفسیاتی مطالعات بھی ثابت کرتے ہیں کہ علمی عاجزی نہ صرف ایک فرد کو بہتر طور پر سننے، سمجھنے اور سیکھنے کے قابل بناتی ہے بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی، مکالمے اور فکری وسعت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی رائے مطلق نہیں اور ہر نظریے میں کوئی نہ کوئی کمی یا بہتری کی گنجائش ہوتی ہے وہی حقیقی معنوں میں عالم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوال سے گھبراتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ بحث کرتے ہیں مگر بدزبانی نہیں کرتے، اختلاف کرتے ہیں مگر دوسروں کی توہین نہیں کرتے۔

علم ایک نور ہے جو صرف تقلید سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ روشنی تب آتی ہے جب انسان اپنی خامیوں کو تسلیم کرے، سچ کی تلاش کو مقصد بنائے اور ہر فکر کو کھلے دل سے سنے۔ جو لوگ ہر وقت حالتِ انکار میں رہتے ہیں وہ دراصل علم کے دشمن ہوتے ہیں۔ مذہب، روحانیت، معرفت اور باطنی شعور کو علم کے خلاف سمجھنا دراصل علم کی اصل وسعت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ حق صرف تجربہ گاہ میں نہیں ملتا، انسانوں کی خدمت، درد، خاموشی اور دعا کے لمحوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔

جب تنقید کو سیکھنے کا ایک مرحلہ سمجھا جائے اور فلسفے کو سوالات کے تناظر میں اپنایا جائے تو ہم علم کی اصل روح کے قریب ہوتے ہیں۔ دانش وہی ہے جو عاجزی، سچائی اور مسلسل جستجو کے ساتھ جڑی ہو۔ خودپسندی، نفرت، فتوہ بازی اور رَٹّا کلچر ہمیں فکری غلامی میں مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ سچائی کا راستہ سوال، تحقیق، اخلاق اور خلوص سے ہو کر گزرتا ہے۔ سچائی مشرق سے آئے یا مغرب سے، مذہب سے ہو یا سائنس سے، فرد سے ہو یا سماج سے اسے ہر قسم کے تعصب، اندھی عقیدت اور جذباتی وابستگی سے اوپر اٹھ کر صرف بہتری، عدل،انصاف اور بھلائی کے معیار پر پرکھ کر قبول کرنا چاہیے تبھی ہم واقعی روشن خیال انسان کہلا سکتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں