Skip to content

لڑکی ہونا جرم کیوں ہے؟

شیئر

شیئر

تحریر: اشراق سید

مجھے اکثر یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ لڑکی ہونا اس معاشرے میں اتنا مشکل کیوں ہو گیا ہے؟
کیوں ہر بار قربانی، خاموشی، برداشت اور آنکھیں بند کر کے جینے کا درس صرف لڑکیوں کو دیا جاتا ہے؟
کیوں ہر دن ہمارے دل ایک اور بیٹی کی موت کی خبر سن کر کانپ اٹھتے ہیں؟
کیوں ہم ایسے واقعات کے عادی ہو گئے ہیں جیسے بیٹیوں کا قتل اب معمول بن چکا ہو؟

آج کل ہر دوسرے دن کسی نہ کسی لڑکی کے قتل کی خبر آتی ہے۔
کبھی محبت کرنے پر، کبھی اپنی پسند بتانے پر، کبھی انکار کرنے پر،
کبھی شادی سے پہلے، کبھی شادی کے بعد،
کبھی شوہر کے ہاتھوں، کبھی باپ یا بھائی کے ہاتھوں۔
اور معاشرہ صرف تماشا دیکھتا ہے۔ خاموشی کا نقاب اوڑھ لیتا ہے۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
بس ایک اور بیٹی دفن ہو گئی، ایک اور ماں کی کوکھ اجڑ گئی، ایک اور کہانی ختم ہو گئی۔

ابھی ایبٹ آباد کے سلہڈ علاقے میں جو واقعہ ہوا، اُس نے دل ہلا کر رکھ دیا۔
ایک 22 سالہ لڑکی، جو پھلکوٹ کی رہائشی تھی اور شادی کے بعد سلہڈ میں رہ رہی تھی، اُسے اُس کے شوہر نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
بس یوں ہی… جیسے وہ کوئی انسان نہیں، کوئی قیمتی جان نہیں، صرف ایک بوجھ تھی، ایک شے تھی۔
ایک پل میں اُس کی سانسیں چھین لی گئیں۔ ایک پل میں اُس کے سارے خواب، اُس کی ماں کی دعائیں، اُس کی بہنوں کی ہنسی، سب ختم ہو گیا۔
وجہ جو بھی ہو، قتل کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔
اور سب سے دردناک بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اب صرف اتنا کہتے ہیں: "افسوسناک واقعہ تھا”… اور اگلے دن اسے بھول جاتے ہیں۔

کیا عورت واقعی ایک کھلونا ہے؟
جسے جب دل چاہے خوش رکھا جائے، اور جب غصہ آئے تو توڑ دیا جائے؟
کیا عورت ایک ایسی مخلوق ہے جسے مارنے کے لیے دلیل ڈھونڈنا کافی ہوتا ہے؟
کیا ہم نے عورت کی قدر صرف اس وقت تک رکھی ہے جب تک وہ خاموش ہے، سر جھکائے ہے، حکم مان رہی ہے؟

ہماری لڑکیاں صرف غیرت کے نام پر مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوتیں۔
وہ بھی انسان ہیں، اُن کا بھی دل ہے، خواب ہیں، احساسات ہیں، اور سب سے بڑھ کر ایک مکمل زندگی ہے۔
انہیں بھی عزت، سکون، آزادی اور محبت کے ساتھ جینے کا پورا حق ہے — بالکل ویسا ہی حق، جیسا ایک مرد کو حاصل ہے۔

لیکن ہماری سوچ عورت کو ایک مکمل انسان تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
ہماری تربیت میں، ہمارے گھریلو ماحول میں، ہماری درسی کتابوں میں، عورت کی تعریف یا تو قربانی ہے، یا فرمانبرداری۔
جو ان دونوں میں نہ ہو، اُس کے لیے جگہ نہیں، عزت نہیں، زندگی نہیں۔

لڑکیوں کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے:
خاموش رہو، زبان نہ کھولو، سوال نہ اٹھاؤ، خواب مت دیکھو، برداشت کرو…
اور جب وہ انکار کرتی ہیں، بولتی ہیں، پسند کرتی ہیں، خواب دیکھتی ہیں…
تو یا تو مار دی جاتی ہیں، یا تاحیات ذہنی قید میں ڈال دی جاتی ہیں۔

ہماری لڑکیاں کبھی "غیرت” کے نام پر ماری جاتی ہیں،
کبھی "عزت” بچانے کے لیے،
کبھی محض اس لیے کہ انہوں نے ہاں یا ناں کہا — اپنی مرضی کی جسارت کی۔

سوال یہ ہے:
کیا لڑکی ہونا واقعی گناہ ہے؟
کیا اپنے حق کے لیے بولنا جرم ہے؟
کیا محبت کرنا سزا ہے؟
کیا بیٹی ہونا موت کا پروانہ ہے؟

ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیسا معاشرہ بن رہے ہیں؟
جہاں ماں باپ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے کے بجائے خوفزدہ ہو جاتے ہیں،
جہاں لڑکی کی رخصتی صرف خوشی نہیں بلکہ دعاوں میں چھپی بےبسی ہوتی ہے:
"اللہ اچھا شوہر دے… اللہ قسمت اچھی کرے… اللہ صبر دے…”

ہم اس قدر زوال کا شکار ہو چکے ہیں کہ اب نئی دلہن کی لاش پر بھی حیرت نہیں ہوتی۔
ہم غیرت کے نام پر قتل کو ایک "خاندانی مسئلہ” کہہ کر چھپا دیتے ہیں۔
ہم "معمولی گھریلو جھگڑا” لکھ کر ایف آئی آر میں قتل کی سنگینی چھپا دیتے ہیں۔
ہم جرم کو معمول بناتے جا رہے ہیں۔

لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خاموش نہ رہیں۔
اب صرف ماتم کافی نہیں۔
اب صرف تعزیت سے کام نہیں چلے گا۔
اب صرف "انصاف ملے گا” جیسے سیاسی بیانات کافی نہیں۔

اب آواز چاہیے۔
ایسی آواز جو انصاف مانگے،
ایسی آواز جو نظام پر سوال اٹھائے،
ایسی آواز جو ہر اُس قاتل کے گریبان تک پہنچے جس نے عورت کو کمزور سمجھ کر اُس کی جان لی۔

ہر لڑکی کی زندگی قیمتی ہے۔
وہ صرف جسم نہیں، وہ ایک مکمل روح ہے۔
ایک بیٹی، ایک بہن، ایک بیوی، اور کبھی ایک ماں —
جو نسلوں کو سنوار سکتی ہے اگر اُسے جینے دیا جائے۔

ہماری بیٹیاں صرف دفن ہونے کے لیے نہیں،
عزت، سکون اور پیار سے جینے کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔

ہمیں اپنے نصاب میں، تربیت میں، میڈیا میں، مذہبی بیانیے میں اور روزمرہ کی گفتگو میں —
عورت کو مکمل انسان تسلیم کرنا ہوگا۔

بیٹی ہونا جرم نہیں،
بلکہ فخر ہونا چاہیے۔

اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر بیٹی کو یہ یقین ہو کہ
اگر اُس پر ظلم ہوگا،
تو صرف خبر نہیں بنے گی،
بلکہ انصاف بھی ملے گا؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں