وحید مراد
ہمارے ہاں مذہب بیزاری کی جو لہر حالیہ برسوں میں ابھری ہے وہ دراصل کسی طویل فکری ارتقاء یا گہرے علمی مکالمے کا نتیجہ نہیں بلکہ مایوسی، احساسِ محرومی اور ماضی کی ناکامیوں کے ردعمل کا اظہار ہے۔ یہ بیزاری ایک جذباتی اور اضطرابی کیفیت کے تحت جنم لیتی ہے جس میں تجزیے سے زیادہ غصہ اور مکالمے سے زیادہ انکار غالب ہوتا ہے۔
یہ رویہ محض مذہب تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے سماجی، تہذیبی اور علمی نظام سے انکار اور لاتعلقی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان افراد کے نزدیک ہر وہ چیز جو کسی روایت، شناخت یا اجتماعی فہم سے جڑی ہو، پسماندگی کی علامت ہے۔ یہ رویہ دراصل ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں ماضی کی شکستوں اور محرومیوں کا بوجھ فرد کی فکری سمت طے کرنے لگتا ہے۔ یہ اصلاح کی نہیں رد عمل کی نفسیات ہے جو مثبت عمل کا حصہ بننے کے بجائے مایوسی کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی بڑی فکری تحریکیں ہمیشہ ارتقاء، مکالمے اور تدریجی اصلاح کے راستے پر چلی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ طبقہ چونکہ خود مذہبی پس منظر رکھتا ہے اس لیے اس کے انکار میں وہی شدت اور جوش پایا جاتا ہے جو کسی نو مسلم میں اپنے پچھلے مذہب کے خلاف ہوتا ہے۔ چونکہ ان کا فکری سفر ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اس لیے اس میں اعتدال، توازن اور گہرائی کی کمی ہے۔ جس طرح نوواردانِ سیاست ہر بات میں انقلاب دیکھتے ہیں ویسے ہی یہ فکری نو آموز ہر سوال کو فتح اور ہر اعتراض کو اعلانِ بغاوت سمجھتے ہیں۔
یہ حضرات بعض فکری رویوں سے متاثر ہو کر مذہب پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اس تنقید کو مقامی سیاق و سباق، تہذیبی تاریخ اور سماجی ڈھانچے سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔ مغرب میں مذہب پر تنقید زیادہ تر کلیسا جیسے ادارہ جاتی جبر کے خلاف تھی جہاں ریاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ انسانوں کی آزادی کا گلا گھونٹتا تھا۔ مگر مسلم دنیا میں مذہب کبھی اس طرح کے ریاستی ادارے کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ یہاں مذہب زیادہ تر اخلاقی رہنمائی، تزکیہ نفس، روحانی سکون اور اجتماعی نظم کا ذریعہ رہا ہے۔
یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ ہمارے معاشروں میں مذہبی، سیاسی اور سماجی ادارے جیسا کہ ان کا کردار ہونا چاہیے ویسا مؤثر انداز میں کام نہیں کر پا رہے۔ ان کی خامیاں، جمود اور طاقت کے ارتکاز پر تنقید بالکل جائز اور ضروری ہے مگر اس تنقید کا مقصد انکار نہیں بلکہ اصلاح، تعمیر اور ترقی ہونا چاہیے۔ تنقید اگر تخریب میں بدل جائے تو وہ کسی بھی بہتری کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
اس طبقے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کے پاس تنقید کرنے کے لیے کوئی تحقیقی مواد، شواہد یا دلیل نہیں ہوتی تو مذہب، فلسفہ اور سائنس کے درمیان تضادات تلاش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کوئی کم تر چیز ہے۔ مذہب کے معاملے میں یہ صرف مفروضوں، سنی سنائی باتوں یا جذباتی دعوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ مذہب کو وہ محض عقائد اور رسومات کا مجموعہ سمجھتے ہیں، اس کی روحانی، اخلاقی اور وجودی جہتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
اسی طرح جب کوئی شخص یہ دعویٰ کر تا ہے کہ مسلم دنیا میں آج کوئی بڑا سائنسدان یا مفکر موجود نہیں تو دراصل وہ صرف انکار کی بنیاد پر پوری تاریخ اور حال کو مسترد کر رہا ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آج بھی مسلم ماہرین دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں، خلائی اداروں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور تحقیقی مراکز میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں مسلم سائنسدانوں، ڈاکٹروں، انجینیئرز اور اسکالرز کی ایک بڑی تعداد علم، تحقیق اور دریافت کے میدان میں سرگرم عمل ہے۔
یہ سوالات اور دعوے محض سطحی مشاہدے کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ ان میں نہ تاریخی تسلسل کو سمجھا جاتا ہے، نہ نوآبادیاتی اثرات کو اور نہ موجودہ سماجی و تعلیمی ساخت کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا انکا ایک عمومی مفروضہ ہے حالانکہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیاں کلیسا کے زیرِ اثر وجود میں آئیں اور اسلامی تہذیب نے اپنے عروج کے دور میں سائنس، طب، فلسفہ اور دیگر علوم میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان سوالات کا تجزیہ ایک سنجیدہ علمی و تحقیقی ماحول میں کیا جائے نہ کہ محض انکار و استہزاء کی بنیاد پر۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ بعض شعبہ جات میں معیارِ کارکردگی یقیناً وہ نہیں جو ہونا چاہیے مگر یہ کہنا کہ یہاں کوئی سائنسدان، محقق یا ماہر موجود نہیں ناانصافی ہے۔ ہر مسلم ملک میں آج بھی کئی شعبوں میں اہلِ علم موجود ہیں اگرچہ ان کی تعداد یا معیارِ مخصوص ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے تاہم ان کی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم معاشرے سست رفتاری سے ہی سہی مگر ترقی کی جانب گامزن ہیں۔
یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ مذہب بیزاری کی یہ فکری تحریک جو خود کو علم و شعور کی علمبردار سمجھتی ہے، اب تک خود کوئی معروف سائنسدان، مفکر یا محقق پیدا نہیں کر سکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریک ابھی انکار، ردعمل اور مزاحمت کے مرحلے میں ہے جہاں تخلیق اور تعمیر کا عمل شروع ہی نہیں ہو سکا۔ ممکن ہے وقت کے ساتھ یہ افراد اس تجربے سے سیکھ کر مستقبل میں معاشرے کی بھلائی اور علمی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا کریں مگر فی الحال یہ تحریک علمی طور پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔
موجودہ فکری بے چینی ایک عبوری کیفیت ہے جو رفتہ رفتہ بالغ نظری، مطالعے اور مکالمے کے ذریعے بہتر سمت اختیار کر سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ غصے کے بجائے فہم، ردعمل کے بجائے تحقیق اور انکار کے بجائے مکالمے کو فروغ دیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو فرد کو تنہائی سے نکال کر ایک تعمیری، بامعنی اور بامقصد زندگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ موجودہ دور میں یہ مذہب بیزار طبقہ اپنی شناخت سیکولر، لبرل، فیمنسٹ یا مذہب مخالف خیالات کے حامل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، ہر فرد کو اپنی فکری شناخت رکھنے کا حق ہے۔ روایتی اور مذہبی لوگوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ان اصطلاحات کو گالی یا طعنہ نہ بنائیں کیونکہ جب کوئی مخالف ان الفاظ کو منفی انداز میں استعمال کرتا ہے تو یہ الفاظ بدنام ہو جاتے ہیں اور معاشرتی نفرت اور لڑائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
یہ لوگ خود اپنے لیے ان اصطلاحات کو احتجاج یا بغاوت کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسی مسلم معاشرے کا حصہ ہیں اور مکمل طور پر سیکولر، لبرل یا ملحد نہیں بن سکتے کیونکہ ان کا شعور اور لاشعور مسلم تہذیب، دینی اقدار اور روایات میں ڈھلا ہوا ہے۔ ان کی یادداشت اور شخصیت میں روایتی معاشرتی اقدار اس قدر راسخ ہیں کہ وہ انہیں مکمل طور پر مٹا نہیں سکتے۔
ہمیں یقین ہے کہ جب ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور علم، انصاف، تخلیق، تحقیق اور تہذیب میں آگے بڑھے گا تو یہی لوگ دوبارہ اسی معاشرے کا تعمیری اور فعال حصہ بن جائیں گے۔ ہم ان سے اچھی امید رکھتے ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں۔ (جاری ہے)
دوسراحصہ: مذہب، فلسفہ اور سائنس: تضاد نہیں، معاونت کا رشتہ
تیسرا حصہ: سائنس فلسفے کا نعم البدل نہیں ، نہ ہی دونوں میں کوئی لڑائی ہے