تحریر : رابعہ سید
ہر روز ایک نئی خبر آتی ہے۔
کہیں کسی عورت نے خودکشی کر لی،
کہیں کسی کو "غیرت” کے نام پر مار دیا گیا،
کہیں جہیز کم ہونے پر زندہ جلا دی گئی،
کہیں شوہر کے ہاتھوں قتل، کہیں بھائی کی انا کا شکار،
کہیں عدالت کے دروازے پر انصاف کی دہائیاں دیتی ماں،
کہیں سسرال کے ظلم سے تنگ آ کر اپنی جان لیتی بیٹی۔
اور کہیں ذہنی اذیتوں کا شکار کر کے جیتے جی مار دی جاتی ہے۔
کیا عورت ہونا جرم ہے؟
کیا کسی بیٹی کا پیدا ہونا ایک گناہ ہے؟ جس کی سزا وہ ساری زندگی بھگتتی ہے؟
ہمارے معاشرے میں عورت کو آج بھی وہی حیثیت حاصل ہے جو ایک بیکار اثاثے کی ہوتی ہے۔ وہ جسے استعمال تو سب کرتے ہیں، لیکن عزت کوئی نہیں دیتا۔ وہ جسے قابو میں رکھنا سب چاہتے ہیں، لیکن محبت سے سنبھالنا کوئی نہیں جانتا۔
عجیب ستم ظریفی ہے کہ جو ماں بنا کر جنت کے دروازے کھولتی ہے،
اسی کو بیٹی ہونے پر کوسا جاتا ہے۔
جو بیوی بن کر ایک گھر کو جنت بناتی ہے،
اسی کو جہنم بنا کر جلا دیا جاتا ہے۔
اور پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں:
"عورتوں کو اور کیا حقوق چاہئیں؟”
کیا تمہیں واقعی معلوم نہیں کہ وہ کیا مانگتی ہے؟
نہ برابری کی ضد، نہ تخت و تاج کی خواہش،
بس…
جینے کا حق، سانس لینے کی آزادی،عزت،توجہ اور انسان سمجھا جانا۔
کیا یہ بہت بڑی مانگ ہے؟
کیا ایک عورت کا یہ سوال کہ "مجھے مت مارو” اتنا ناگوار ہے؟
اکثر اوقات عورتیں شور نہیں کرتیں،
وہ خاموشی سے مر جاتی ہیں،
روز، ہر روز…
کسی کی گالیوں میں، کسی کی لاتوں میں،
کسی کی نظراندازی میں، کسی کے "بس صبر کر لو” میں۔
اور جب ایک دن وہ خاموش لاش بن کر سامنے آتی ہیں
تو لوگ افسوس سے کہتے ہیں:
"بہت اچھی تھی، بڑی صابر عورت تھی…”
ہمیں اب سوچنا ہوگا ، کب تک؟
کب تک عورت صرف صبر کی دیوی بنی رہے گی؟
کب تک وہ خاموش قربانیوں کا استعارہ بنی رہے گی؟
کب ہم اسے جینے کا حق دیں گے،
اپنی مرضی سے جینے کا،
اپنے فیصلے خود کرنے کا،
اپنے جسم، اپنے خواب، اور اپنی سوچ پر اختیار کا؟
یہ کوئی فیمینزم کی بات نہیں،
یہ انسانیت کی بات ہے،
اور اگر ایک عورت کو جینے کے لیے "حق مانگنا” پڑ رہا ہے
تو یہ صرف اس کا المیہ نہیں ، ہمارا اجتماعی زوال ہے۔
آئیے۔۔۔
عورتوں کو ان کے سارے حقوق بعد میں دیں،
پہلے زندہ رہنے کا حق دے دیں۔
ہو سکے تو اتنا احسان کر دیں۔