عمرخان جوزوی
ایبسیلوٹی ناٹ اورہم کوئی غلام ہیں عمران خان کے یہ دوجملے اورنعرے بڑے مشہورہوئے اوریہ دونوں جملے ونعرے غالباًاس امریکہ کے خلاف تھے جس امریکہ سے اب نہ صرف کپتان کے سادہ اورنادان کھلاڑی بلکہ کپتان کے اپنے بھولے بھالے نابالغ سیاسی بچے بھی عمران خان کی رہائی اورپی ٹی آئی کی مقدمات سے خلاصی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔تحریک انصاف کے بڑوں سے لیکرچھوٹوں تک ہرایک کی یہ خواہش،تمنااورامید ہے کہ امریکہ ان کے سرپردست شفقت رکھتے ہوئے اس مشکل وقت اورمرحلے سے ان کونکالے۔پی ٹی آئی کے بڑوں اورچھوٹوں کی امریکہ کی طرف امیدبھری نگاہیں توایک عرصے سے مرکوزہیں لیکن صدرٹرمپ کے اقتدارمیں آنے کے بعدان کی یہ توقعات کچھ زیادہ بڑھ گئی ہیں۔جس طرح دنیاامیدوں پرقائم ہے اسی طرح ان کے سیاسی خواب بھی امریکہ اورصدرٹرمپ سے وابستہ امیدوں پرقائم ہیں۔کپتان کے بیٹے تواب جاگے۔یہ ہمارے والے توپہلے سے یہ امیدلگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ صدربنتے ہی ان کے کپتان کوجیل کی غلامی سے آزادکرائیں گے لیکن ان کے یہ ایمرجنسی آزادی ورہائی والے خواب تاحال پورے نہیں ہوئے کیونکہ ٹرمپ نے صدربننے اوراقتدارسنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی اورعمران خان کے معاملے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جس کی انہوں نے ان سے امیدیں لگائے رکھی تھیں۔ٹرمپ کی سردمہری اورخاموشی کے باعث اب کپتان کے بیٹوں نے اس معاملے میں ٹرمپ کوحرکت دینے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے ہیں۔ایبسیلوٹی ناٹ اورہم کوئی غلام ہیں سے شروع ہونے والاسفراب اسی امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے تک پہنچ گیاہے۔جنہوں نے کل تک پاکستان کے چوبیس کروڑعوام کوامریکہ کی غلامی سے آزادکرواناتھاآج وہ اسی امریکہ کوایک کپتان کی آزادی کے لئے دہائیاں دیتے پھررہے ہیں۔اس لئے تولوگ کہتے ہیں کہ امریکہ پہلے کپتان کوجیل سے آزادکرائے گاپھرپی ٹی آئی اورعمران خان پاکستان کے عوام کوامریکہ کی غلامی سے آزادکرائیں گے۔غیرت،انااوراصول اچھی شے ہے لیکن یہ کیااصول ہوئے کہ جن کے خلاف ایبسیلوٹی ناٹ اورہم کوئی غلام ہیں کاعلم بلندکیاگیاان کے سامنے تودست سوال درازہولیکن جواپنے ہی ملک کے حکمران اورسیاستدان ہوں ان سے اب اورآج بھی سوکلومیٹرکافاصلہ ہو۔اپنوں سے دوری اورغیروں سے یاری یہ کوئی اصول اورغیرت نہیں۔غیرت کاتقاضایہ ہے کہ ملک اورسیاسی معاملات میں امریکہ جیسے ملک کودرمیان میں لانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کرمسائل کاحل نکالاجائے۔پی ٹی آئی پرمقدمات،رہنماؤں کی سزائیں اورکپتان کی گرفتاری یہ اندرونی معاملات ہیں ان سے امریکہ یاٹرمپ کاکوئی تعلق نہیں۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اوریہاں اس طرح کے معاملات جمہوری اندازمیں ہی حل ہونی چاہئیں۔جمہوریت کونقصان ہی تب پہنچتاہے جب اس طرح کے معاملات اورمسائل میں باہرکے ممالک اورلوگوں کوشامل کیاجاتاہے۔یہ توعمران خان بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپس کے معاملات میں غیروں کی مداخلت یہ ملک وقوم دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔پھرملکی معاملات میں امریکی مداخلت کے توکپتان سب سے زیادہ مخالف رہے ہیں۔امریکی غلامی نامنظورتواوروں سے زیادہ پی ٹی آئی کاپسندیدہ نعرہ رہا۔وہ پارٹی اورلوگ جن کی سیاست ہی امریکہ مخالف نعروں اوردعوؤں پرکھڑی رہی۔ اب اگرایک فردکی رہائی کے لئے وہ امریکی صدریاکسی اورگورے کے پاؤں پکڑیں تواس سے بڑی بے شرمی کی بات اورکیاہوگی۔؟ہم پہلے بھی لکھتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ ملک کے معاملات ملک میں حل ہونے چاہئیں۔سیاسی پارٹیاں اورسیاسی لوگ سارے درکبھی بندنہیں کرتے۔میدان سیاست میں وہی سیاستدان ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں جوسودربندکرنے کے ساتھ ایک در کھلاچھوڑدیتے ہیں۔پی ٹی آئی اورعمران خان سے زیادہ سخت حالات اورمعاملات مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی پرآئے،اس ملک میں نوازشریف اورآصف زرداری کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہوا۔لیکن کیاان دونوں پارٹیوں یاان کے لیڈروں اورسیاستدانوں نے مذاکرات اوربات چیت کے سارے دروازے بندکرکے امریکہ سے امیدیں باندھیں۔؟عمران خان کے اپنے دوراقتدارمیں میاں نوازشریف پرکونسامقدمہ نہیں بنا۔؟کیاوہ سیاست کے لئے نااہل نہیں ہوئے۔؟لیکن میاں نوازشریف اورآصف زرداری نے امریکہ کی طرف امیدبھری نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے انتہائی آرام،صبروتحمل اورسیاسی وجمہوری طریقے سے اپنے معاملات اورمسائل کوہینڈل کیا۔وہ ن لیگ جس کوسرچھپانے کے لئے اس ملک میں جگہ نہیں مل رہی تھی آج اس ملک میں اسی ن لیگ کی پھر حکومت ہے۔میاں نوازشریف بھی اگرمذاکرات کے تمام دروازے بندکرکے اسے غیرت اور اناکامسئلہ بنادیتے توآج میاں صاحب کے شب وروزبھی کسی ٹرمپ کے انتظارمیں گزررہے ہوتے۔ویسے یہ کیسی غیرت اوراناہے جوٹرمپ سے رہائی کی امیدیں باندھتے ہوئے نہیں آتی لیکن اپنے ہی حکمرانوں،سیاستدانوں اورلیڈروں سے بات کرتے ہوئے جوش مارنے لگتی ہے۔غیرت،انااوربہادری تویہ ہے کہ خان کی رہائی کے لئے ٹرمپ کی طرف دیکھنے کے بجائے امریکہ کے خلاف ایبسیلوٹی ناٹ اورہم کوئی غلام ہیں کانعرہ اسی طاقت اورجوش سے بلندہو۔کپتان کی رہائی کے لئے امریکہ کے پاؤں پکڑنے سے بہترہے کہ میاں نوازشریف اورآصف زرداری سمیت یہاں ان اپنوں کے ہاتھ پکڑے جائیں یہ کم ازکم اپنے توہیں۔پی ٹی آئی کی بقاء اسی میں ہے کہ یہ تکبروغرورکے تمام بت توڑکرریاست اورجمہوریت کوگلے لگائیں ورنہ امریکہ اورٹرمپ کی طرف دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔