Skip to content

طبقاتی تفریق اور تعلیمی ادارے

شیئر

شیئر

راشد خان سواتی
وائس پرنسپل، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول بفہ

کشکول میں جس رات بھیک نہ گی، وہ رات میری قوم کی تاریک نہ ہوگی۔
اس قوم کی تقدیر میں لکھی ہے تباہی، جس قوم کے مکتب کی فضا ٹھیک نہ ہوگی۔

درس و تدریس کے لیے معاشرے میں موجود مدارس، سکول، مکتب اور یونیورسٹیاں نہ صرف اس معاشرے کی بنیادی اکائیاں ہیں بلکہ اس کا آئینہ بھی۔ اگر ان اداروں کا ماحول اور کلچر مثبت، منصفانہ اور تعمیری ہو تو یہ معاشرہ بھی مثبت سمت میں گامزن ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی ادارے واقعی تربیت فراہم کر رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر آج بھی طبقاتی تفریق کیوں موجود ہے؟ قوم پرستی، تعصب، بغض اور کینے جیسی بیماریاں کیوں ختم نہیں ہو رہیں؟ انسانوں کو ان کی صلاحیتوں اور انسانیت کے بجائے لائق، نالائق، غریب، امیر، خوش شکل، بدشکل، معذور، نارمل، چھوٹے سکیل، بڑے سکیل، تعلقات، سیاسی اپروچ یا خاندانی پس منظر کی بنیاد پر کیوں پرکھا جا رہا ہے؟

آج تو اسکالرشپ بھی، جو کسی زمانے میں محض قابلیت پر ملتی تھی، ایک طعنہ بن چکی ہے۔ پہلے جو طالب علم اسکالرشپ حاصل کرتا، وہ خوشی محسوس کرتا کہ وہ منتخب ہوا ہے، چاہے اس میں پیسے کم ہی ہوں۔ اب اسکالرشپ کا اشتہار بھی امدادی کارڈ لگتا ہے، اور جنہیں اسکالرشپ ملتی ہے، وہ سنتے ہیں کہ "ہماری فیسوں سے تمہاری اسکالرشپ دی جا رہی ہے۔”

سرکاری اداروں میں طلبا کے درمیان فرق کم ہے، لیکن اساتذہ میں کیڈرز اور گریڈز کی بنیاد پر شدید تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ بڑے گریڈ والے اساتذہ چھوٹی جماعتوں میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، اور کم گریڈ والے بڑی جماعتوں میں جانے سے جھجکتے ہیں، چاہے ان میں قابلیت ہو۔ بعض اوقات اداروں کے سربراہان بھی اپنے عہدے کی بنیاد پر تدریس سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تاکہ ان کے "رُتبے” میں فرق نہ آ جائے۔

یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تو اثر و رسوخ، اختیارات اور طاقت کی جنگ نے تعلیم کا کلچر ہی متاثر کر دیا ہے۔ شعور دینے کی بجائے، ان اداروں میں مقابلے، رتبے اور تعلقات کا کلچر غالب آ رہا ہے۔

ہم نے سن رکھا تھا کہ بلوچستان کے سردار، سندھ کے وڈیرے اور پنجاب کے جاگیردار شعور کو روکنے کے لیے تعلیم سے اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج جن اداروں کو شعور پیدا کرنا تھا، وہ خود طبقاتی کشمکش کا مرکز بن چکے ہیں۔

معاشرے میں یہ تصور کہ "فلاں کے پاس زیادہ اثر و رسوخ ہے، فلاں کے پاس اختیار ہے” نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر سرایت کر چکا ہے۔ یہ ایک خاموش زہر ہے جو ہر شعبے اور ہر دل میں پھیل رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر تعلیمی اور تربیتی اداروں میں سورۃ الحجرات کی تفسیر اور ترجمہ عام کیا جائے، تاکہ عدل و انصاف، مساوات، محبت، اور دوسروں کی عزتِ نفس کا شعور پروان چڑھے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں