Skip to content

کیا بیان بازی سے اسکول آباد ہوں گے؟

شیئر

شیئر

تحریر اشراق سید

پچھلے دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا ایک بیان سنا کہ "جتنے بچے اسکول سے باہر ہیں، وہ سب اسکول جائیں گے”۔ سچ کہوں تو پہلی بار یہ سن کر خوشی ہوئی، دل نے چاہا کہ شاید اب کچھ بدلے گا، شاید اب وہ بچے جو سڑکوں پر کام کرتے ہیں، بستے اٹھائیں گے، شاید کوئی ماں اپنی بیٹی کو پڑھتا دیکھ کر خوشی سے روئے گی۔ لیکن جیسے ہی خوشی کی لہر تھمی، ایک سوال ذہن میں آیا کہ کیا یہ سب صرف کہنے کی بات ہے؟ یا واقعی اس کے پیچھے کوئی مضبوط ارادہ، عملی منصوبہ اور نیت ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسکول نہ ہونا صرف ایک مسئلہ ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
کہیں غربت ہے، کہیں بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے، اور کہیں لڑکیوں کو پڑھانے پر خاندان ہی ناراض ہو جاتا ہے۔
تو کیا ایک بیان سب مسائل کا حل ہے؟ کیا ایک تقریر سے وہ بچی اسکول جائے گی جس کے پاس چپل تک نہیں؟ کیا وہ بچہ پڑھنے بیٹھے گا جس کا باپ اسے ہوٹل پر برتن دھونے بھیجتا ہے؟اسکول بنانا کافی نہیں۔
غربت
بچوں سے مزدوری کروانا
لڑکیوں کے لیے تعلیم پر سماجی رکاوٹیں
دور دراز دیہات میں اسکولوں کا نہ ہونا
یہ وہ وجوہات ہیں جنہیں محض ایک بیان سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
سنا ہے حکومت نے تعلیم کے لیے بجٹ بھی اچھا خاصا رکھا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ بجٹ استعمال ہو بھی رہا ہے؟
کئی اسکول ایسے ہیں جہاں بچوں کے پاس بیٹھنے کو بینچ نہیں، کتابیں وقت پر نہیں ملتیں، اور کئی اسکولوں میں تو استاد ہی نہیں آتا۔خیبرپختونخوا حکومت نے تعلیم کے شعبے کے لیے بجٹ میں 21 فیصد حصہ رکھا ہے، لیکن:
کئی اسکولوں میں بچے آج بھی زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں
کتابیں وقت پر نہیں ملتیں
اساتذہ کی کمی ہے
تعلیمی فنڈز کے اجرا میں تاخیر عام ہے
جب بنیادی ڈھانچہ ہی مکمل نہیں، تو "سب بچے اسکول جائیں گے” کہنا محض خوش فہمی ہے۔
تو پھر اتنے بڑے دعوے کیوں؟ جب عمل کچھ اور ہو اور بات کچھ اور، تو بات پر یقین کیسے آئے؟جب لوگ ایسے بڑے بڑے وعدے سنتے ہیں، لیکن کچھ مہینے بعد وہی بچے پھر سڑکوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں، تو لوگ حکومت پر سے بھروسا کھونے لگتے ہیں۔ اس لیے باتوں کے بجائے کام دکھانا ضروری ہے، اور وعدے وہی کرنے چاہییں جو پورے کیے جا سکیں۔
اگر واقعی حکومت چاہتی ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے، تو صرف بیان کافی نہیں۔
اس کے لیے ہر علاقے کا ڈیٹا، استادوں کی بھرتی، والدین کو آمادہ کرنا، اور سب سے بڑھ کر نگرانی کا نظام ہونا چاہیے۔
ورنہ یہ بھی اُن وعدوں کی طرح ہو گا جو ہم نے پہلے بھی بہت سنے "نیا پاکستان”، "تعلیم سب کے لیے”، "تبدیلی آ نہیں رہی، آ گئی ہے” مگر حقیقت میں کچھ بدلا نہیں۔

میں بطور ایک عام شہری صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم خوشنما الفاظ سے تھک چکے ہیں۔ ہمیں اب ایسے لیڈر چاہییں جو کم بولیں اور زیادہ کام کریں۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو بات کہی جائے، وہ زمین پر دکھائی دے۔
اگر گنڈا پور صاحب کا بیان سچ ہے تو ہم اُن کے ساتھ ہیں، لیکن اگر یہ بھی ایک اور نعرہ ہے تو معاف کیجیے، اب ہم خاموش تماشائی نہیں رہیں گے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں