Skip to content

پاکستان میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی موجودگی: امکانات، رکاوٹیں اور صارفین کا مستقبل

شیئر

شیئر

شیرافضل گوجر

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 135 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 72 ملین کے قریب ہے۔یہ تعداد پاکستان کو دنیا کے ان چند ممالک میں شامل کرتی ہے جہاں سوشل میڈیا ایک طاقتور اورموئثر پلیٹ فارم بن چکا ہے تاہم صارفین کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود، گوگل، میٹا(فیس بک،انسٹا گرام،وٹس ایپ اور تھریڈ)، ٹک ٹاک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسی بڑی ٹیک کمپنیاں پاکستانی حکومت کی باقاعدہ درخواست کے باوجود پاکستان میں اپنے اپنے دفاتر قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔

یہ مضمون انسٹیوٹ فار ریسرچ,ایڈوکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ IRADA کی طرف سے شائع کردہ سیچوئشن رپورٹ (Big Tech in Pakistan) کے تجزیہ پر مبنی ہے جس میں ان کمپنیوں کی حکمت عملی، حکومت کے ساتھ تعلقات، عوامی رسائی اور آزادی اظہار پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تاریخی جھلک

پاکستان میں سوشل میڈیا کی ابتدا اور اس پر عائد پابندیاں کئی مراحل سے گزری ہیں۔ یوٹیوب پر 2012 سے 2016 تک پابندی، فیس بک پر توہین رسالت کے واقعات کے بعد عارضی بندش، اور ٹک ٹاک پر بار بار کی جانے والی پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوشگوار یا ہموار نہیں رہے۔

میٹا، گوگل، ٹک ٹاک اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز نے پاکستان کے ساتھ تعلقات تو رکھے لیکن وہ ہمیشہ ’غیر رسمی‘ اور ’دفتر کے بغیر موجودگی‘ کے اصول پر قائم رہے،زیادہ تر معاملات سنگاپور، دبئی یا دوسرے علاقائی دفاتر سے نمٹائے جاتے ہیں۔

دفتر کیوں نہیں کھولتے؟ کمپنیاں مختلف قانونی اور سیکورٹی کے ایشوز کو بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں؟

پاکستانی حکومت 2020 میں نافذ کیے گئے “غیر قانونی آن لائن مواد کی روک تھام” قوانین کے تحت ان کمپنیوں سے پاکستان میں دفتر قائم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ تاہم ان کمپنیوں کے انکار کی کئی وجوہات ہیں۔
قانونی غیر یقینی صورت حال:
PECA جیسے قوانین کے تحت حکوتی اداروں کو بہت زیادہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت مواد کو ہٹا سکتی ہے یا کمپنیوں سے ڈیٹا کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

سلامتی کے خدشات:
کمپنیوں کے ملازمین کے لیے توہین مذہب کے مقدمات، بلاکجز اور دھمکی آمیز ماحول قابلِ قبول نہیں۔

انفراسٹرکچر کی کمزوری:
بجلی، انٹرنیٹ اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

معاشی منافع کا سوال:
کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ پاکستانی مارکیٹ ابھی اتنی منافع بخش نہیں کہ یہاں دفتر کھولا جائے۔

دفتر کے بغیر موجودگی:

اگرچہ ان کمپنیوں نے پاکستان میں دفاتر قائم نہیں کیے، لیکن وہ تین بنیادی طریقوں سے ملک میں متحرک ہیں ،مواد ہٹانے اور ڈیٹا کی فراہمی
گوگل، میٹا اور ٹک ٹاک نے پاکستانی حکومت کی درخواستوں پر ہزاروں مواد حذف کیے۔ مثلاً، گوگل نے 2024 میں 75 فیصد سے زائد درخواستوں پر کارروائی کی، جبکہ میٹا نے 82 فیصد صارف ڈیٹا فراہم کیا۔ ٹک ٹاک نے تو 94 فیصد درخواستوں پر عمل کیا۔

حکومتی تعلقات
یہ کمپنیاں باقاعدگی سے حکومتی عہدیداروں، وزیروں اور وزیراعظم سے ملاقات کرتی ہیں۔ 2024 میں میٹا کے نمائندے نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ گوگل، ٹک ٹاک اور دیگر کمپنیوں نے بھی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

کمیونٹی انگیجمنٹ پروگرام
کمپنیوں نے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مختلف ورکشاپس، مقابلے اور تربیتی پروگرام منعقد کیے۔ میٹا نے خواتین کاروباری افراد کے لیے “SheMeansBusiness” پروگرام، گوگل نے صحافیوں اور اساتذہ کی تربیت، اور ٹک ٹاک نے “ڈیجیٹل حفاظت” جیسے پروگرام شروع کیے۔

کلیدی خدشات: صارف کہاں ہے؟

یہ تمام سرگرمیاں اپنی جگہ، مگر بنیادی سوال یہ ہے: کیا پاکستانی صارفین اور سول سوسائٹی کو ان پالیسی سازیوں میں کوئی نمائندگی حاصل ہے؟

خفیہ رابطے اور غیر شفاف فیصلے
اکثر اوقات کمپنیوں اور حکومت کے درمیان معاملات بند دروازوں کے پیچھے طے پاتے ہیں۔ نہ کوئی تفصیل جاری ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آزادیِ اظہار پر کس بنیاد پر قدغن لگائی گئی۔

اختیارات کا عدم توازن
حکومت کبھی کبھار اجتماعی پابندیوں (جیسے ٹویٹر پر 2024 میں لگائی گئی پابندی) کے ذریعے کمپنیوں پر دباؤ ڈالتی ہے۔ دوسری طرف کمپنیاں بھی صرف اپنی سہولت کے مطابق کسی سول سوسائٹی یا حکومتی اہلکار سے رابطہ کرتی ہیں۔
اظہارِ رائے کی گرتی ہوئی آزادی
PECA 2025 میں کی گئی ترامیم کے بعد صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔ ان ترامیم کے تحت حکومت کو سوشل میڈیا پر موجود مواد پر براہ راست اور سخت کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کو باقاعدہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مواد ہٹانے کے احکامات دے سکے
اکثر تربیتی ورکشاپس، ایونٹس اور مہمات صرف کمپنی کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ جیسے فیس بک کی طرف سے انتخابی معلومات کی مہم، جبکہ جھوٹی معلومات کا بنیادی ذریعہ خود فیس بک کے الگورتھم ہوتے ہیں۔

نتائج اور عوامی اعتماد کا بحران

یہ صورت حال نہ صرف اظہار رائے کے حق پر حملہ ہے بلکہ صارفین کے لیے ایک مستقل غیر یقینی کیفیت بھی پیدا کر رہی ہے۔ عوام کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب کون سا پلیٹ فارم بند ہو جائے گا، کون سا مواد بلاک کیا جائے گا، اور ان کا ذاتی ڈیٹا کس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔اس کے نتیجے میں عوام کا ان پلیٹ فارمز پر اعتماد کم ہو رہا ہے، اور حکومتی نیت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو پاکستان میں آن لائن جمہوری عمل اور اظہارِ رائے کی آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ مواد ہٹانے اور ڈیٹا کی درخواستوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھے۔
حکومت اور کمپنیوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں، معاہدوں اور پروگراموں کی تفصیلات شفاف طریقے سے جاری کی جائیں۔
سول سوسائٹی اور پارلیمانی کمیٹیوں کو ان معاملات میں بااختیار کردار دیا جائے۔
کمپنیاں اپنے کمیونٹی گائیڈ لائنز میں مقامی تناظر کو مدنظر رکھیں، خاص طور پر مذہب اور سیاسی اظہار کے معاملات میں کم از کم شفافیت کے اصول اپنائے جائیں،جیسے کہ سالانہ رپورٹس، عوامی نمائندے اور صارفین کے شکایت مراکز۔

ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے ایک “چارٹر آف رائٹس” بنایا جائے جس میں شہریوں کے آن لائن اظہار، پرائیویسی اور شفاف عمل کی ضمانت ہو۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ اظہار ہے، مگر اس پر حکومت اور بڑی ٹیک کمپنیوں کے بڑھتے کنٹرول نے اسے ایک بے بس صارف کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سول سوسائٹی، صحافی اور عام صارفین اس نظام میں اپنی گنجائش کا مطالبہ کریں ،ہمیں صرف آزادی اظہار کا تحفظ ہی نہیں، بلکہ اس میں اپنی شراکت کو بھی یقینی بنانا ہو گا اور یہی قدم ہماری ڈیجیٹل خودمختاری کی بنیاد بنے گا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں