Skip to content

دینی مدارس کوشیطانوں سے بچائیں

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی

کل تک تعلیم وتربیت کے لئے دینی مدارس کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن افسوس مٹھی بھرعناصر کی جاہلیت اورحیوانیت کی وجہ سے آج نہ صرف اہل علم کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھنے والے دینی مدارس بدنام ہورہے ہیں بلکہ پورے مذہبی طبقے کی طرف لوگ گھورگھورکے دیکھنے لگے ہیں۔سوات کے ایک مدرسے میں معصوم طالب علم کی تشددسے شہادت نے مدارس اوراہل مدارس کومیدان میں لاکھڑاکردیاہے۔وہ علماء اورقراء جنہیں لوگ محبت،عزت واحترام کی نظروں سے دیکھتے تھے سوات جیسے افسوسناک واقعات کی وجہ سے اب لوگ ان علماء کی طرف شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔علماء ہمارے سروں کے تاج اوردینی مدارس اسلام کے قلعے، اہم ستون اورمراکزہیں۔ہمیں دینی مدارس اورعلماء سے پہلے بھی محبت وعقیدت تھی اورہمارااب بھی علماء سے عقیدت ومحبت کارشتہ ہے۔ہماری زندگی کااکثرحصہ علماء کے درمیان انہی مدارس میں گزرا۔ہم نے ان مدارس اوراہل مدارس کوہمیشہ عوام کی خیرخواہی اوردین کی سربلندی کے لئے سرگرداں دیکھا۔ان مدارس میں نہ صرف قوم کے بچوں کومفت میں قرآن وحدیث کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان مدارس میں ان کی بہترسے بہترتربیت بھی کی جاتی ہے۔ملک،قوم اوردین کی انہی اعلیٰ خدمات پرہم علمائے حق کوکل بھی انبیاء کے وارث سمجھتے تھے اورہم علماء کوآج بھی دین کے چوکیدارسمجھتے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ سوات مدرسے میں دینی تعلیم کے نام پرظلم وبربریت کی تاریخ رقم کرنے والے درندوں کوہم مولوی اورقاری تودورانسان کہنے کے بھی لائق نہیں سمجھتے۔کیاانبیاء کے وارث اوردین کے پہرہ دارایسے ہوتے ہیں۔؟ہم آج بھی دنیاکوکہتے ہیں کہ مدارس میں انبیاء کے وارث ہوتے ہیں لیکن ایسے درندے نہ پہلے انبیاء کے وارث تھے اورنہ یہ آج دین کے کوئی پہرہ دارہیں۔معصوم طالب علم کی تشدزدہ نعش کودیکھ کرہم سمجھتے ہیں کہ واللہ یہ ہمارے اس نبی کے دین کے ہرگزوارث نہیں جونبی دونوں جہانوں کے لئے رحمت اللعالمین بن کراس دنیامیں آئے۔ہمارے نبی نے تودشمن کے بچوں کوبھی گلے لگایا۔یہ اس نبی کے کیسے وارث ہیں جوپھول جیسے بچوں کومسلتے ہوئے ذرہ بھی خدااوراس کے رسول ﷺسے نہیں ڈرے۔ایساکام توقصائی جانوروں کوذبح کرتے ہوئے بھی نہیں کرتے جوکام اورظلم مولویت کالبادہ اوڑھے ان شیطانوں نے ایک معصوم طالب علم کے ساتھ کیا۔ایک معصوم طالب علم کوڈنڈوں،مکوں اورلاتوں کے ذریعے تشددکانشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتارنے والے ان درندوں کے اپنے گھروں میں کیا بچے نہیں۔؟بچے تودشمن کے بھی سانجھے ہوتے ہیں۔سخت سے سخت دل انسان بھی بچوں پرہاتھ اٹھاتے ہوئے کانپ جایاکرتاہے۔معلوم نہیں یہ کیسے قاری۔؟کیسے مولوی۔؟اورکیسے انسان تھے جوبچے کی جان لیتے ہوئے بھی نہیں کانپے۔کوئی انہیں مولوی کہے یاقاری لیکن سچ یہ ہے کہ یہ انسان بھی نہیں۔انہیں انسان کہنابھی انسانیت کی توہین ہے کیونکہ جوکام انہوں نے کیاہے وہ انسان نہیں حیوان ہی کرسکتے ہیں۔دین کالبادہ اوڑھنے والے ان درندوں پردوحرف بھیجنے اوران کے خلاف آوازاٹھانے والوں پرتنقیدنہیں بلکہ ان کی تعریف کرنی چاہئیے۔اہل مدارس اوراللہ کاخوف سینے میں رکھنے والے علمائے کرام ایک بات یادرکھیں کہ سوات کے ان درندوں پرتنقیدیہ نہ تودینی مدارس پرتنقیدہے اورنہ ہی علمائے حق کے خلاف کوئی مہم۔دین کے لبادے میں اگرکسی نے شیطان بن کردین کوبدنام کیاہے تواب ایسے شیطانوں کوکنکرمارنے میں کیاحرج ہے۔؟سوات کے ان موٹے تازے شیطانوں کے خلاف مذمتی الفاظ اورکنکریوں کواگرکوئی قاری اورمولوی اپنے یامدارس کے خلاف کوئی مہم سمجھتاہے تووہ اگران درندوں کارشتہ دار،سہولت کاریاکوئی مریدنہیں توپھراس کوان درندوں کے دفاع میں لال پیلاہونے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکناچاہئیے۔مدرسے کے مہتمم اوراس کے قاریوں کے تشددسے جان کی بازی ہارنے والابدقسمت بچہ بھی آخرکسی کالخت جگرتھا۔اس معصوم کے جسم کوتشددسے نیلاوکالاکرنے والے کیااپنے بچوں کے ساتھ ایساسلوک اورظلم برداشت کریں گے۔؟استادتوروحانی باپ ہوتاہے یہ کیسے استاداورروحانی باپ تھے جوروحانی بیٹے کی جان ہی نکال گئے۔قال اللہ اورقال رسول اللہ کی تعلیم حاصل کرنے والے بچے کے ساتھ اگریہ ظالم یہ ظلم نہ کرتے توکوئی ان پردوحرف نہ بھیجتا۔ان کوکنکریاں اس لئے پڑرہی ہیں کہ انہوں نے کام ہی غلط کیا۔اس لئے اس واقعہ کی مذمت میں اٹھنے والی آوازیہ علماء اورمدارس کے خلاف کوئی مہم نہیں بلکہ یہ چندشیطانوں کی اس خباثت کاردعمل ہے جوانہوں نے دین کے نام پرکیا۔اس واقعے میں کوئی ایک قاری ملوث نہیں بلکہ اس جرم اورگناہ میں پورامدرسہ شامل ہے۔مدرسے کامہتمم اورسربراہ جب خوددرندوں کادرندہ ہوپیچھے کیابچتاہے۔ایسے مہتمم،ایسے قاریوں اورایسے نام نہادمدرسوں کادینی مدارس اوردین سے کوئی تعلق نہیں۔ایسے درندے مدرسے میں ہوں،کسی سکول،کالج یاکسی یونیورسٹی میں سب پرایک نہیں ہزاراورلاکھ بارلعنت بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے نہ صرف ملک وقوم بلکہ مدارس اورہمارادین بھی بدنام ہورہاہے۔دین میں کوئی سختی نہیں۔دین اسلام توشروع سے آخرتک پیار،محبت اورامن کادین ہے۔جولوگ اپنی درندگی اورجاہلیت کے باعث قوم کے معصوم بچوں کوتشددکانشانہ بناکرلوگوں کودین سے بدظن کررہے ہیں ان لوگوں سے بڑھ کردین اوردینی مدارس کے بڑے دشمن اورکوئی نہیں۔ دین کالبادہ اوڑھنے والے ان لوگوں کی ایسی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آئے روزدینی مدارس اوردینی حلقہ بدنام ہورہاہے۔اب وقت آگیاہے کہ مساجدومدارس کوایسے لوگوں سے مکمل پاک کیاجائے۔دینی مدارس کودشمن سے اتناخطرہ نہیں جتناخطرہ ایسے شدت پسنداورجاہل قسم کے مولویوں سے ہے۔اس لئے علمائے کرام کوآگے آکرایسے عناصرکاراستہ فوری روکناہوگاتاکہ دینی مدارس اوردینی طبقے کوان کے شرسے بچایاجاسکے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں