
سراج احمد رتنولی
فن، ادب اور ثقافت کسی بھی قوم کی شناخت اور اس کے فکری ارتقاء کی علامت ہوتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے علمی، ادبی اور فنی شخصیات سے مالا مال رہا ہے، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنائی۔ انہی نابغۂ روزگار شخصیات میںجوہرآباد،ضلع خوشاب سے ایک نام محمد نعیم یادؔ کا بھی ہے، جو اپنے ہمہ جہت فنون میں یکتا ہیں۔ وہ نہ صرف اردو اور پنجابی ادب میں اپنی تخلیقی جولانیوں کے سبب ممتاز حیثیت کے حامل ہیں بلکہ فنِ خطاطی اور مصوری میں بھی اپنی انفرادیت کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ ان کا فن روایت اور جدت کے سنگم پر کھڑا ایک ایسا مینار ہے جو اپنی روشنی سے ادب اور فنونِ لطیفہ کے کئی دریچے منور کر چکا ہے۔
محمد نعیم یادؔ کی ادبی خدمات کا آغاز کم عمری میں ہوا اور ان کی تحریریں جلد ہی ایک منفرد اسلوب اور تخلیقی ندرت کے باعث ادبی حلقوں میں پہچانی جانے لگیں۔ ان کے افسانے، افسانچے، اور شعری مجموعے انسانی جذبات، معاشرتی مسائل اور نسوانی نفسیات کی گہری عکاسی کرتے ہیں۔ نعیم یادؔ کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ادبی اظہار کے لیے صرف ایک زبان کو ذریعہ اظہار نہیں بنایا بلکہ اُردو کے ساتھ ساتھ انھوں نے پنجابی اور انگریزی زبان کو بھی استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ نعیم یاؔ د کی سولہ تصانیف میں تین پنجابی اور دو انگریزی زبان میں بھی ہیں۔وہ ایک ایسے ادیب ہیں جنہوں نے زندگی کے کرب، احساسات کی نرمی اور مشاہدے کی باریک بینی کو اپنے لفظوں میں ڈھال کر ایک نئی جہت دی۔ ان کی کہانیوں کے تراجم انگریزی اور گورمکھی زبان میں بھی ہو چکے ہیں، جس سے ان کی تخلیقات بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی پا چکی ہیں۔
محمد نعیم یادؔکا قلم صرف ادب کی وادی میں ہی نہیں چلتا، بلکہ ان کے تخلیقی ہنر نے خطاطی کے فن میں بھی نئی روح پھونک دی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں روایت کی نزاکت اور جدت کی توانائی یکجا ہو کر تحریر میں حسن و دلکشی کی نئی جہت پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے مختلف خطوں میں قرآن مجید اور دیگر اسلامی متون کو اس انداز سے تحریر کیا کہ ہر تحریر اپنے اندر ایک الگ جمالیاتی پہلو سموئے ہوئے ہے۔ خطِ ثلث، دیوانی، نستعلیق اور رقعہ میں ان کا کام ایک ایسا منفرد نقش رکھتا ہے، جو دیکھنے والے کو سحر میں جکڑ لیتا ہے۔محمد نعیم یادؔ نے شعبہ خطاطی میں اپنے فن کا اظہار قرآن مجید کی خطاطی کے ذریعے کیا اور قرآن مجید کا پہلا قلمی نسخہ صرف 75 دنوں میں خطِ ثلث میں اپنے ہاتھ سے تحریر کیا اس کے بعد ان کا یہ شوق اور جنون بڑھتا چلا گیا اورانھوں نے خط دیوانی میں دوسرا قلمی نسخہ 50 دن میں، تیسرا قلمی نسخہ خط نسخ میں 50 دن میں، چوتھا قلمی نسخہ خطِ نستعلیق 45 دن میں اور پانچواں قلمی نسخہ خط رقعہ میں50 دن میں مکمل کرنے کااعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ "نورالقلم” کے عنوان سے 300 کے قریب خطاطی کے نمونہ جات پر مشتمل دو کتابی البم بھی ہاتھ سے تحریر کیے۔ "نقوشِ یاد” کے عنوان سے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شانِ اقدس میں اردو،فارسی اور عربی زبان میں لکھے گئے نعتیہ اشعار کی خطاطی کی۔اور پھر سورۃ الرحمن،سورۃ المُلک،سورۃ یس،درود تاج اور حلیۃ الرسول مع اسماء الحسنیء و اسماء النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خطاطی کر کے ان کو بڑے ہی خوبصورت اور منفرد انداز میں پیش کیا۔ ان کی خطاطی محض تحریر نہیں، بلکہ ایک ایسا بصری تجربہ ہے جو اسلامی فن کی روح کو مجسم کرتا ہے۔
مصور کی حیثیت سے بھی محمد نعیم یادؔ کی تخلیقی حس ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کے تخلیق کردہ قدرتی مناظر حقیقت اور تخیل کے حسین امتزاج کا مظہر ہیں، جو دیکھنے والے کو حیرت اور مسرت کے احساس میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان کی مصوری کا مجموعہ "My World of Nature” اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔
لیکن ہر بڑے فنکار کی طرح محمد نعیم یادؔ کو بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو تسلیم کروانے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں فن و ادب کی قدردانی کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے۔ آرٹس کونسل، ادب اکادمی اور ثقافتی ادارے ان کی محنت کے اعتراف میں تذبذب کا شکار رہے۔ انہوں نے حکومتی اور ادبی اداروں سے اپنی خدمات کے اعتراف کی بارہا گزارش کی، مگر بیشتر اوقات یہ صدا صحراؤں میں کھو گئی۔ باوجود اس کے، ان کی تخلیقی توانائی ماند نہیں پڑی، اور انہوں نے اپنی ذات کے چراغ کو اپنی ہی روشنی میں جلا کر تابندہ رکھا۔
اگرچہ وطن میں وہ اپنی توقع کے مطابق پذیرائی حاصل نہ کر سکے، مگر بین الاقوامی سطح پر ان کا نام گونجنے لگا۔ بھارت کے معروف ادبی جریدے "ثالث” کے سرورق کی ڈیزائننگ کا اعزاز انہیں حاصل ہوا، جبکہ ان کی کئی کہانیاں انگریزی اور پنجابی گورمکھی میں ترجمہ ہو کر بھارت اور دیگر ممالک میں شائع ہوئیں۔
محمد نعیم یادؔ کے فن و ادب پر تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں ان کی پنجابی کتاب "نیناں دے سفنے” پر تحقیق کی گئی، جبکہ سرگودھا یونیورسٹی میں ان کی کہانیوں "اک خواب جو ٹوٹ گیا” اور "پتھر روتے ہیں” پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بھی ان کی افسانوی تخلیقات پر ایم فل کی سطح پر تنقیدی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام نوجوان اہلِ قلم کے لیے دس روزہ ’’بین الصوبائی اقامتی منصوبہ‘‘ میں بیس اہلِ قلم میں صوبہ پنجاب سے ان کا انتخاب ہوا۔یہ سب ان کے کام کی وسعت اور اثر پذیری کی دلیل ہے۔
ان کے مستقبل کے عزائم بھی اسی جذبے سے عبارت ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں فنِ خطاطی کو ایک مستند ادارے کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا جائے۔ وہ نئی نسل کو روایتی اور جدید خطاطی کے رموز سکھانے کا خواب رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی اردو اور پنجابی ادب میں مزید معیاری تخلیقات پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔محمد نعیم یادؔ جیسے ہمہ جہت فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی ذات صرف ایک ادیب، خطاط یا مصور تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک تہذیبی ورثے کے امین ہیں، جو اپنی محنت اور تخلیقی ہنر سے اس ورثے کو نئی جہتوں میں ڈھال رہے ہیں۔ ان کا فن روایت کا احترام بھی کرتا ہے اور جدت کی روشنی بھی بکھیرتا ہے، جو انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ایسے ہنرمند نایاب ہوتے ہیں، اور اگر انہیں حکومتی و بین الاقوامی سطح پر تعاون حاصل ہو تو وہ نہ صرف پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں بلکہ اسلامی فنون کو بھی نئی وسعت دے سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جلد وہ وقت آئے گا جب ان کی خدمات کو وہ مقام ملے گا جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔