راشد خان
ہر سال جب میٹرک کا رزلٹ آنے کو ہوتا ہے، تو ہمارے ہاں ایک عجیب سا جنون سر اٹھاتا ہے—”پوزیشن”، "نمبر ون”، اور "زیادہ سے زیادہ نمبروں کی دوڑ”۔ گویا زندگی کی تمام کامیابی کا انحصار صرف ایک رزلٹ شیٹ پر ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے—گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج، زراعتی انقلاب، صنعتی ترقی، اور میڈیا کی بے تحاشہ وسعت۔ لیکن ہمارا معاشرہ آج بھی صرف نمبروں کے سحر میں گرفتار ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا ہم اپنے بچوں کی شخصیت کو صرف نمبروں کے ترازو میں تول کر ان کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟
اگر نمبر کم آئیں تو احساسِ کمتری، طعنے اور مایوسی۔
اور اگر زیادہ آئیں تو توقعات کا بوجھ، جس تلے اکثر پوزیشن ہولڈر بھی اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔
اسکول کا کام صرف امتحانات کی تیاری کروانا نہیں، بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر بچہ ایک بااخلاق، باشعور، بامقصد اور ذمہ دار شہری بنے۔ ہمیں بچوں کا صرف مقداری (Quantitative) نہیں بلکہ استعدادی (Qualitative) جائزہ لینا ہوگا۔
یہ بات والدین کے لیے سمجھنا نہایت ضروری ہے — چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ — کہ اگر آپ کا بچہ:
نفرت و محبت کے جذبات میں فرق کرتا ہے،
دوسروں کے لیے دل میں احساس رکھتا ہے،
بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتا ہے،
اور مذہبی و اخلاقی اقدار کا خیال رکھتا ہے،
تو یقین رکھیے! وہ کامیابی کی اصل راہوں پر گامزن ہے۔
خواب، نمبر نہیں
کیا ہمیں بچوں کو صرف نمبر دکھانے چاہییں یا خواب؟
ہمارے بچوں کو جاننا چاہیے کہ:
ایک چائے بیچنے والا (نریندر مودی) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
ایک ہوٹل پر کام کرنے والی ماں کا بیٹا (باراک اوبامہ) سپر پاور امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔
تو ہمارا بچہ کیوں نہیں؟
بس ہمیں ان کے دل میں احساس کی وہ چنگاری روشن کرنی ہے، جو عمل کو جنم دیتی ہے۔
ان کے خوابوں کو تعبیر کی سمت لے جانا ہے۔
نمبر ون اور آگے نکلنے کی اندھی دوڑ کی بجائے، ہمیں اپنے اپنے حصے کا دیا جلانا ہے۔ بچوں کو ان کی بساط، شوق اور صلاحیت کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے۔
حوصلہ افزائی، مبارکباد، اور کندھے پر تھپکی—یہی وہ طاقت ہے جو کسی بچے کی تمام ناکامیوں، پریشانیوں اور مایوسی کو مٹا کر نئی منزل کی طرف رواں کر دیتی ہے۔
خدارا!
کسی بھی بچے کو نمبروں، گریڈوں یا ناکامی کا طعنہ نہ دیں۔
ان حالات سے گزرنے والے طلباء کا ہاتھ تھامیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، اور انہیں یقین دلائیں کہ امتحان صرف ایک مرحلہ ہے، زندگی نہیں۔
لہٰذا، جب اس سال کا رزلٹ آئے، تو اس پرچی کو زندگی و موت کا فیصلہ نہ بنائیں۔
بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کے خوابوں کا حصہ بنیں، ان کی شخصیت کو نکھاریں—
تاکہ وہ کل کے لیڈر، سائنسدان، محقق، استاد، صحافی ،تاجر ،زمیندار یا مفید شہری اور معاشرے کے روشن چراغ بن سکیں۔