وحید مراد
ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جہاں انفارمیشن کا سیلاب ہے مگر فہم، تدبر ،شعور اور حقیقی علم کا قحط۔ جدید الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کی فراہمی کو آسان بنایا ہے وہیں ایک ایسا رویہ بھی جنم دیا ہے جو محض نقل، تکرار اور جذباتی ہیجان پر مبنی ہے۔ حقیقت کی تلاش ، سیاق و سباق کی تفہیم، سنجیدہ مکالمے اور فکری گہرائی جیسے اوصاف رفتہ رفتہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی جگہ ایک سطحی، سنسنی خیز اور تیز رفتار "ڈیجیٹل رٹا کلچر” نے لے لی ہے جو صرف ظاہری تاثر پر زور دیتا ہے ۔
اکثر صحافی حضرات بغیرکسی تصدیق یا تحقیق کے خبریں چلا دیتے ہیں۔ جو کچھ سنا یا دیکھا اسے فوری طور پر "بریکنگ نیوز” کے نام پر نشر کر دیا جاتا ہے۔ مقصد سچائی کی کھوج نہیں بلکہ محض ریٹنگ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسی صحافت دراصل افواہ بازی اور فکری آلودگی کو فروغ دیتی ہے۔ مشہور شخصیات کی بیماری، وفات یا اسکینڈلز سے متعلق کئی خبریں بعد میں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں مگر تب تک وہ معاشرتی فضا میں زہر گھول چکی ہوتی ہیں۔
اینکرز اور تجزیہ کار اکثر ایسے موضوعات پر رائے زنی کرتے ہیں جن کی علمی گہرائی، سماجی پیچیدگی یا تاریخی نزاکت سے وہ نابلد ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں تجزیہ کم اور شور و سنسنی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے الفاظ کی صورت گری سیاسی وابستگی یا نظریاتی جانبداری کے زیر اثر ہوتی ہے۔یوں میڈیا کا پلیٹ فارم شعور بیدار کرنے کے بجائے تعصب اور فکری جمود کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اکثر ٹاک شوز میں معیشت، مذہب یا حساس سماجی موضوعات پر بات کرنے والے لوگ نہ اس میدان کے ماہر ہوتے ہیں اور نہ ہی سنجیدہ مکالمے کے اہل۔ نتیجتاً بصیرت کے بجائے فقط ہنگامہ فروغ پاتا ہے۔
جرائم کی کوریج میں بھی یہی انداز دکھائی دیتا ہے۔ کئی بار اغوا، تشدد یا قتل کی خبریں اس شدت سے پیش کی جاتی ہیں گویا پورا معاشرہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ لیکن بعد کی تحقیق بتاتی ہے کہ یا تو واقعہ کچھ اور تھا یا اس کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اس طرح نہ صرف خوف اور مایوسی پھیلتی ہے بلکہ اجتماعی ذہن پر ایک ایسا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جو اسے سنجیدہ تجزیے سے محروم کر دیتا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ رٹا کلچر اور بھی شدت سے پایا جاتا ہے۔ لوگ بغیر کسی تحقیق کے خبروں کو ری ٹویٹ کرتے ہیں، ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے ہیں اور کاپی پیسٹ شدہ اقوال و نظریات کو اپنی رائے بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ رویے ایسے ہیں جیسے کوئی مشینی انداز میں دوسروں کی باتیں اور حرکات دہرا رہا ہو مگر نہ مقصد سمجھے، نہ مطلب۔ یہ انداز نہ صرف سچائی کے خلاف ہے بلکہ شعور کے نام پر بے شعوری کا اظہار ہے۔
یہ طرزِ عمل اور بھی زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے جیسے دہشتگردی، دھماکہ، سیلاب یا قتل۔ اس وقت سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر ایک ہی تصویر، ایک ہی ویڈیو، ایک ہی خبر بار بار دہرائی جاتی ہے۔ ہر شخص وہی کچھ شیئر کرتا ہے جو پہلے ہی ہزاروں بار شیئر ہو چکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تکرار کا مقصد کیا ہے؟ جب سب ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو سامع کون ہوگا؟
المناک پہلو یہ ہے کہ ایسے مواقع پر انسانی دکھ اور اذیت کو محض سنسنی خیزی اور "awareness” کے نام پر ایک تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ خون میں لت پت لاشوں، جلے ہوئے جسموں اور بلکتے بچوں کی تصاویر شیئر کرتے ہیں جیسے یہ کوئی کارنامہ ہو۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس بچے کی لاش وہ وائرل کر رہے ہیں اس کی ماں پر کیا گزرے گی؟ جن کے زخموں کو وہ منظرِ عام پر لا رہے ہیں ان کے گھر والوں کے جذبات پر کیا اثر پڑے گا؟
اسی طرح مشہور بیانات، جذباتی دعوے اور سیاسی یا مذہبی نعرے بغیرکسی گہرے فہم یا تنقیدی سوچ کے شیئر کردیے جاتے ہیں۔ یہ جملے نہ تو کسی ذاتی فکری عمل کی پیداوار ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں انفرادی بصیرت کی کوئی جھلک ہوتی ہے۔ یہ محض تیار شدہ سانچے ہوتے ہیں جو ہر موقع پر مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے دہرائے جاتے ہیں ۔ یہ سب رویے نہ صرف اصل سوچ کے دروازے بند کرتے ہیں بلکہ اختلاف رائے کی جرات اور ذاتی بصیرت کی نشونما کو بھی مفلوج کر دیتے ہیں۔
ڈیجیٹل رٹا کلچر کی بدترین شکل اسپیم (spam)ہے یعنی وہ پیغامات، تصاویر یا ویڈیوز جو بنا کسی سیاق و سباق ، مقصد یا اجازت کے مسلسل دوسروں کو بھیجے جاتے ہیں۔ بعض اوقات نیکی کے اجر کی امید میں یا کسی سیاسی، تجارتی یا ذاتی مفاد کے تحت روزانہ درجنوں پیغامات فارورڈ کیے جاتے ہیں۔ نہ ان کی صداقت پرکھنے کی زحمت کی جاتی ہے نہ ممکنہ اثرات پر غور ۔ یہ ایک ذہنی دباؤ اورجبر ہے جس میں توقع کی جاتی ہے کہ اگلا شخص بھی اسے آگے بڑھائے۔ یہ سلسلہ نہ صرف ذہنی آلودگی کو فروغ دیتا ہے بلکہ سماجی رابطوں کےوقار اور فکری معیار کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ رویہ افراد کو اپنی سوچ، انتخاب اور انکار کے حق سےمحروم کردیتا ہے جو دراصل فکری آزادی سے دشمنی کے مترادف ہے۔
آج کا معاشرہ ایک ایسی صورتِ حال میں داخل ہو چکا ہے جہاں لوگ سچائی کے بجائے افواہوں پر یقین کرتے ہیں، تحقیق کی جگہ وائرل مواد کو ترجیح دیتے ہیں اور فکری گہرائی کی جگہ سطحی اظہار کو علم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی پوسٹ، اس کا اسٹیٹس یا اس کی شیئر کردہ ویڈیو ہی شعور کی معراج ہے حالانکہ حقیقت میں وہ صرف ڈیجیٹل بازگشت کا حصہ ہوتی ہے۔
ایسے ماحول میں ایک باشعور فرد کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہر خبر، ہر ویڈیو، ہر تصویر کو نشر کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال کرے کہ کیا یہ سچ ہے؟ کیا یہ انسانیت کی خدمت ہے؟ کیا یہ فہم اور آگاہی کو فروغ دے گی یا صرف سنسنی پھیلائے گی؟ کیا یہ دکھ کو بامعنی بنائے گی یا اسے ایک تماشا بنا دے گی؟ اگر ہم نے اپنے آپ سے یہ سوالات کرنے شروع کر دیے تو یہی ہماری فکری آزادی اور شعوری بیداری کا پہلا قدم ہوگا۔
ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔بلاشبہ یہ ایک طاقتور اورموثر ذریعہ ہے جو علم، آگہی اور رابطے کے بے شمار امکانات فراہم کرتا ہے۔ مگر اس کی حقیقی افادیت تبھی سامنے آتی ہے جب اسے فہم، تحقیق، ذمہ داری اور انسان دوستی کے اصولوں کے تحت استعمال کیا جائے۔ بصیرت اور سچائی کے بغیر اس کا استعمال ایک ایسا بے سمت ہتھیار بن کر رہ جاتا ہے جو محض شور، الجھن اورنمائش کو فروغ دیتا ہے۔ سچائی، اخلاق اور شعور پس منظر میں چلے جاتے ہیں اورمعاشرہ صرف تماشائیوں کے ہجوم میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔