خیبرپختونخوا کی آب گاہوں کے محافظین امن کی بگڑتی ہوئی صورتحال، خلافِ قانون شکار اور تجاوزات کی وجہ سے خطے کی حیاتیاتی تنوع کی حفاظت میں مشکلات کا شکار ہیں
جون
حکام دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ شکار کی یہ پُرانی ثقافت اور شمال مغربی پاکستان کے صوبہ
خیبر پختونخوا کی آب گاہوں میں کئی دہائیوں تک کی جانے والی تجاوزات نے مل کر نقل مکا نی
کرنے والے پرندوں (وہ پرندے جو پانی والی جگہوں میں رہتے ہیں اور جن کا شکار کیا جاتا ہے
جیسے مرغابی، سارس وغیرہ) کی آبادی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ دریں اثنا، وہ رپورٹ کرتے
ہیں کہ افغانستان کی سرحد سے متصل اِس صوبے میں تصادم اور عسکریت پسندی کے خطرے نے
جنگلی حیات کے تحفظ کو بہت مشکل کر دیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں دریائے کرّم کے ساتھ 4,000 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ایک قطعہ اراضی
کو 1976 میں رامسر کنونشن کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی ایک آب گاہ ( یہ ایک امتیازی
ماحولیاتی نظام ہے جو مستقل طور پر یا موسمی طور پر پانی سےسیر رہتی ہے) کا نام دیا گیا تھا
کیونکہ یہاں پرندوں کی بڑی تعداد آکر اپنی افزائش نسل کا سامان کرتی ہے۔ اِس آب گاہ کو تھانیدار
والا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس آب گاہ کو خیبرپختونخوا حکومت نے ایک محفوظ گیم ریزرو )
زمین کا ایک محفوظ علاقہ جہاں آبی پرندے باحفاظت رہ سکتے ہیں یا اُنھیں قانونی طریقے سے شکار
کیا جا سکتا ہے) بھی قرار دیا تھا، جس کے انتظام اور دیکھ بھال کے لیے صوبائی سطح پر محکمہ
جنگلی حیات کے ایک سب ڈویژنل افسر کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔
لیکن خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلی حیات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر ملوک خان ، جن کی ذمہ
داریاں متعدد اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں کے مطابق، حالیہ برسوں میں تھانیدار والا کا دورہ کرنے
والے پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ “بڑھتی ہوئی انسانی بستیوں نے اِن کے قدرتی
ٹھکانوں کے رقبے کو کم کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ بے قابو غیر قانونی شکار میں اضافہ بھی ان کی
تعداد میں تیزی سے کمی کا باعث بنا ہے،” خان نے بتایا۔
دریائے کرّم دراصل دریائے سندھ کی ایک معاون ندی (دریا کا معاون یا جھیل میں گرنے والا دھارا)
ہے اور اِس دریا کے کنارے طویل عرصے سے شکار کا رواج ہے۔ 1990 میں، رامسر معائنہ ٹیم
نے مشاہدہ کیا کہ نقل مکانی کرنے والے آبی پرندوں، خاص طور پر سارس (ایک سفید رنگ کا لمبی
ٹانگوں والا آبی پرندہ) کا بہت زیادہ شکار کیا جا رہا تھا۔ سردیاں گزارنے کے لیے عام سارس اور
ڈیموسیل سارس (ایک چھوٹا سارس جو ایشیا اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے) اپنی افزائش گاہوں
سے پاکستان میں مزید شمال کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
سردیوں میں شکاری دریائے کرّم کے کنارے روایتی طریقے سے خیمے لگاتے ہیں اور ڈبل بیرل
شاٹ گن سے لے کر AK-47 تک مختلف قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ سارس اور دیگر نسل کےآبی
پرندوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔لیکن جس طرح حالیہ دہائیوں میں تھانیدار والا کے آس پاس
انسانی بستیوں میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح پرندوں کی آبادی پر شکار کا اثر بھی پڑا ہے۔
ضلع لکی مروت جہاں تھانیدار والا واقع ہے کے سب ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میر اسلم خان دی تھرڈ
پول کو بتاتے ہیں کہ ” اِس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس جگہ آنے والی
سارسوں کی تعداد میں بہت کمی آئی ہے۔”
بندوق سے نشانہ لگا کر شکار کرنے والے اور جال بچھا کر آبی پرندے پکڑنے والوں نے بھی ان کی
تعداد میں کمی کو محسوس کیا ہے۔ لکی مروت کے رہائشی الطاف علی خان نے اپنے گھر کے ایک
حصے کو سارسوں کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ جو سارس اُن کے پاس ہیں اُن میں سے کچھ کو
انہوں نےجنگل سے پکڑا تھا جب کہ زیادہ تر کو پالا ہے۔ خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں
تھانیدار والا میں آنے والے سارسوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔
“ہمیں یہاں اتنی سارسیں آتی ہوئی نظر نہیں آتیں جیسا کہ میں اپنے بچپن میں دیکھا کرتا تھا اور اپنے
چچا کو انہیں پھنسانے میں مدد کیا کرتا تھا،” خان نے بتایا۔
الطاف علی خان چھوٹے سارسوں کو کھانا کِھلا رہے ہیں۔کچھ جنگلوں سے پکڑے گئے لیکن زیادہ تر
لکی مروت شمال مغربی پاکستان میں مارچ 2023 میں اپنے زمین پر پالے گئے تھے۔ (تصویر:
ذوالفقار علی)
خان تقریباً ایک ماہ تک نر اور مادہ سارسوں کو چھوٹے پنجروں میں ایک دوسرے کے قریب رکھتے
ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ پرندے جوڑی بناتے ہیں اور آزاد کئے جانےکے بعد بھی ساتھ
رہتے ہیں۔ (تصویر: ذوالفقار علی)
تنازعہ آب گاہوں کے تحفّظ کو ایک خطرناک کام بنا دیتا ہے
انتظامی نگرانی میں خلل کی وجہ سے تھانیدار والا کے پرندوں کا شکار بڑھ گیا ہے۔ اس علاقے میں
تنازعہ کی وجہ سے حکام نگرانی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں ناکام رہے ہیں، جن کا مقصد
غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
تنازعات نے پاکستان کے سرحدی اضلاع کو کئی دہائیوں سے شدید متاثر کیا ہوا ہے۔ 2007 سے
افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع علاقوں میں ایک عسکریت پسند گروپ، تحریک طالبان، پاکستان
میں پاکستانی ریاست کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس گروپ کے دو اہم مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ سابقہ وفاق
کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے فوج کے دستوں کو نکالا جائے اور دوسرا یہ کہ فاٹا کے
صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ہوئے 2018 کے انضمام کو واپس لیا جائے۔
اگست 2021 میں افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان نے قبضہ کیا جس کے بعد سے تحفّظ کی
صورت حال مزید بدتر ہو گئی ہے۔ ضلع لکی مروت, جہاں تھانیدار والا واقع ہے، حالیہ مہینوں میں
تشدد کی سرگرمیوں میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیات کے ایک اہلکار نے دی تھرڈ پول سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر با ت کرتے ہوئے
بتایا کہ تھانیدار والا تحفّظ کی نازک صورتحال کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے پرندوںکے لئے
اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز آب گاہوں اور آس پاس کے علاقوں میں
عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہیں،کیونکہ عسکریت پسند قانون نافذ کرنے والے
اہلکاروں پر حملہ کر رہے تھے۔
“مخاصمانہ ماحول اور حکومت کی بے حسی کے نتیجے میں آب گاہیں ویران ہو گئی ہیں،” اہلکار نے
بتایا۔
اب ہم نے نقل و حرکت کم کر دی ہے اور جنگلی حیات کی چیک پوسٹ پر رات کی ڈیوٹی بند کر
دی ہے۔ اب ہم خوف کی حالت میں کام کر رہے ہیں۔
میر اسلم، سب ڈویژنل فوریسٹ آفیسر، لکی مروت ڈسٹرکٹ
میر اسلم کہتے ہیں کہ زیادہ تر ہمارا کام نقل مکانی کرنے والے پرندوںکی حفاظت ہے۔ “ماضی میں ہم
نگرانی کے لئے ہر وقت یہاں موجود رہے۔ ہمارا عملہ اِن نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی گنتی
کرتا تھا اور شکاریوں کو پکڑنے کے لئے چوکس رہتا تھا۔ WWF کے معائنہ افسران اور بیرونِ
ملک سے عطیات دینے والے اکثر دورہ کرتے تھے۔ افسوس کہ اب ایسا نہیں ہے۔”
وہ مزید کہتے ہیں کہ اب ہم نے نقل و حرکت کم کر دی ہے اور جنگلی حیات کی چیک پوسٹ پر
رات کی ڈیوٹی بند کر دی ہے۔”اب ہم خوف کے تحت کام کر رہے ہیں۔”
تھانیدار والا میں جو تھوڑا بہت حفاظتی ڈھانچہ جس میں حفاظتی باڑیں اور کھانا کھلانے کے لئے
محفوظ احاطے بھی شامل تھے وہ بھی 2010 کے سیلاب میں تباہ ہو گئے تھے۔ یہ وہی سیلاب ہے
جس سے پاکستان کا پانچواں حصہ ڈوب گیا تھا۔ قدرتی آفات تنازعات کے ساتھ متوارد ہوئیں اِسی لئے
انتظامی اِداروں کو خود کو فعال رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
میر اسلم کا کہنا ہے کہ سارس اور دیگر نقل مکانی کرنے والے پرندوںنے بڑی حد تک دریائے کرّم
پر آنا ترک کر دیا ہے۔ اور اِس کے بجائے وہ پڑوسی صوبے بلوچستان کی طرف پرواز کرنے لگے
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “پچھلی ہجرت کے موسم کے دوران سارسوں کا صرف ایک جُھنڈ دیکھا گیا تھا
جو بہت اونچائی پر آب گاہ پر اڑتا دیکھا گیا تھا۔”
بظاہر شکاری بھی کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں۔ عبدالوہاب، جو لکی مروت میں شکاریوں کی ایک
نجی تنظیم کرین ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں، نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ” اب مقامی
شکاری سارسوں کو پھانسنے اور آبی پرندوں کا شکار کرنے کے لئے بلوچستان جاتے ہیں۔”
ملوک خان کے مطابق، جہاں تشدد اور شکار خیبرپختونخوا کی آب گاہوں میں نقل مکانی کرنے والے
پرندوںکی آبادی میں کمی کے بڑے عوامل ہیں، وہیں دیگر عوامل اس سے بھی زیادہ اہم ہو سکتے
ہیں۔ ” میں ذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کمی کی بڑی وجہ اِن کے قدرتی ٹھکانوں کا
تھانیدار والا اور ٹانڈہ ڈیم کے گردونواح میں انسانی آبادکاری کی وجہ سے ختم ہوجانا ہے،” خان نے
بتایا۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو خطرات کا سامنا ہے
پشاور میں خیبرپختونخوا میں محکمہ جنگلی حیات کی ڈپٹی ڈائریکٹر حسینہ عنبرین کا کہنا ہے کہ آب
گاہوں کے ارد گرد مکانات کی تعمیر کی وجہ سے نقل مکانیکرنے والے پرندے، خاص طور پر
سارس, صوبے بھر میں اپنے قدرتی ٹھکانوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اھم مسئلہ یہ ہے کہ محکمہ جنگلی حیات کے پاس سابقہ فاٹا (ایک نیم خودمختار
علاقہ جہاں 2018 میں خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی اور وفاقی قوانین میں توسیع کی
گئی تھی) میں غیر قانونی شکار پر قابو پانے کے لئے نہ تو بنیادی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی وسائل۔
کوہاٹ شہر کے قریب رامسر کنونشن کے تحت نامزد کردہ ایک اور مقام ٹانڈہ ڈیم میں آبی پرندوں میں
کمی محسوس کی گئی ہے۔ جنگلات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شکار
کی کثرت، اردگرد کے علاقے میں غیر منصوبہ بند تعمیرات اور ساتھ ہی کشتی رانی اور ماہی گیری
جیسی تجارتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کی وجہ سے آبی پرندوں نے اس مقام پر آنا
کم کر دیا ہے۔
کوہاٹ شہر کے قریب ٹانڈہ ڈیم (تصویر: ذوالفقار علی)
دی تھرڈ پول سے بات کرنے والے اہلکاروں نے کہا کہ کشتی رانی اور ماہی گیری نے آب گاہوں میں
اِن آبی پرندوں کی آبادی کو پریشان کر دیا ہے (تصویر: ذوالفقار علی)
یہ اہلکار صوبہ خیبر پختونخوا کے چار اضلاع میں محفوظ علاقوں کے انتظام کے ذمہ دار ہیں اور
ان کا کہنا ہے کہ اِن کے دفتر کے پاس ٹانڈہ ڈیم پر نقل مکانی کرنے والے پرندوںکیآمد کی منظم
طریقے سے گنتی کے لئے ضروری آلات اور وسائل نہیں ہیں۔
خیبر پختونخواہ وائلڈ لائف اینڈ بائیو ڈائیورسٹی (تحفّظ، بچاؤ، نگہداشت اور انتظام) ایکٹ 2015 میں
آب گاہوں کے انتظام اور اِنھیں برقرار رکھنے کا ذکر نہیں ہے۔ “حکومت کے پاس صوبے میں آب
گاہوں کے تحفّظ کو یقینی بنانے کے لئے کوئی خاطرخواہ قانونی پالیسی یا حکمت عملی نہیں ہے،”
اہلکار نے بتایا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں ریسرچ اینڈ کنزرویشن کے سینئر مینیجر چوہدری محمد جمشید اقبال دی
تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ “ہم نے پاکستان میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی آبادی میں کمی کو
محسوس کیا ہے۔ آب گاہوں اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو موسمی تبدیلیاں، خوراک کی کمی،
قدرتی ٹھکانوں کی تباہی، پانی کی قلت، اور غیر قانونی شکار جیسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو متعلقہ قوانین کو نافذ کرنا چاہیے جیسے کہ محفوظ آبی ذخائر پر
موٹر سے چلنے والی کشتیوں پر پابندی لگانی چاہیے اور مقامی بستیوں میں آب گاہوں کی اہمیت کے
بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے عمل کو بہتر بنانا چاہیے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے ساتھ مل کر اور وفاقی حکومت کی طرف سے اِن کی
تکنیکی رائے کے لئے درخواست کے جواب میں، WWF پاکستان نے پاکستان نیشنل ویٹ لینڈز
پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے۔ پالیسی کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد ملک کی آب گاہوں
کو درپیش خطرات مثلاً پانی کی طلب، ہم آہنگی کی کمی، متعلقہ حکام کے درمیان موجود صلاحیت
اور وسائل کی طرف توجّہ دینا ہے۔ اس مسودے کو 2019 میں حکومت کے حوالے کیا گیا تھا لیکن
ابھی تک اس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔